قاضی عبید اللہ مدراسی شافعی
قاضی عبید اللہ مدراسی شافعی(1270ھ-1346ھ) ہندوستان کے شافعی مسلک عالم دین و شیخ طریقت تھے
شمس العلماء مولانا قاضی عبید اللہ مدراسی شافعی 4 شعبان 1270ھ(1853ء) کو مدراس میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل حاصل کیں
آپ کے والد قاضی صبغۃ اللہ مدراسی بھی ایک بڑے عالم دین و مفتی تھے، کئی کتابوں کے مصنف تھے، نواب کرناٹک کی حکومت کے قاضی تھے، آپ کے آباواجداد بصرہ سے کوکن آکر آباد ہوئے تھے، شمس العلماء مولانا قاضی عبید اللہ مدراسی کے مورث اعلی فقیہ عطا احمد شافعی تھے، آپ کا سلسہ نسب اس طرح ہے
"قاضی عبید اللہ(م1346ھ) بن قاضی محمد صبغۃ اللہ(م1280ھ) بن مولوی محمد غوث(م1238ھ) بن مولوی ناصر الدین محمد(م1209ھ) بن قاضی نظام الدین احمد صغیر(م1189ھ) بن محمد عبد اللہ شہید (شہادت1148ھ) بن نظام الدین کبیر(م1108ھ) بن قاضی حسین لطف اللہ بن قاضی رضی الدین مرتضیٰ بن قاضی محمود کبیر(م995ھ) بن قاضی احمد بن فقیہ ابو محمد بن مخدوم فقیہ اسماعیل(م879ھ) بن مخدوم فقیہ اسحاق بن فقیہ عطا احمد شافعی"[1]
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں
نزھۃ الخواطر جلد ہشتم میں مصنف کتاب مولانا حکیم سید عبد الحی صاحب نے شمس العلماء قاضی عبید اللہ مدراسی کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کو بھی پیر ابو احمد صاحب سے سلاسل اربعہ میں بیعت واجازت حاصل تھی، قاضی صاحب مرحوم قاضی بدر الدولہ کے نامور فرزند، متبحر عالم اور جنوبی ہند کے نامور مفتی تھے، جن کے فتاوی پر بڑا اعتماد تھا، آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے، تقریبا بائیس کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں مجموعہ فتاوی بھی شامل ہے، مذہبا شافعی تھے اور اسی مذہب میں فتویٰ دیتے تھے، 15 ربیع الاول 1346 ھ(16ستمبر 1927ء) میں انتقال ہوا[2]
سر قاضی مدراس
انگریزی دور میں قاضی ایکٹ 1880 عیسوی کو منظور ہوا، مدراس ہی پہلا صوبہ تھا جہاں اس ایکٹ کے تحت حکومت کی جانب سے قاضی کا تقرر کیا گیا، 18 ستمبر 1880ء میں قاضی عبید اللہ کو حکومت نے قاضی کے عہدہ پر تقرر کیا، حکومت ہند نے آپ کی علمی قابلیت کی بنا پر 1897ء میں آپ کو شمس العلماء کا خطاب دیا[3]
بیعت و خلافت
آپ ابو احمد مجددی بھوپالی سے بیعت ہوئے اور ان سے اجازت بیعت و خلافت حاصل ہوئی[4] آپ کا شجرہ طریقت اس طرح ہے
- قاضی عبید اللہ مدراسی(م1346ھ)
- شیخ ابو احمد مجددی بھوپالی(م1342ھ)
- مولانا شاہ عبد الغنی مجددی دہلوی(م1296ھ)
- مولانا شاہ ابو سعید مجددی رامپوری(م1250ھ)
- مولانا غلام علی دہلوی نقشبندی(م1240ھ)
- مرزا مظہر جان جاناں شہید(شہادت 1195ھ)
- سید نور محمد بدایونی(م1135ھ)
- سیف الدین فاروقی(م1098ھ)
- محمد معصوم(م1079ھ)
- شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی(م1034ھ)
مدرسہ محمدی مدراس کا قیام
1892ء میں مدرسہ محمدی مدراس کا قیام عمل میں آیا، شمس العلماء قاضی عبید اللہ مدراسی اس کے بانی تھے[5] مدرسہ کی زمین بھی آپ کی بہن حلیمہ بی کی وقف کردہ ہے، چنانچہ خانوادہ بدر الدولہ جلد اول میں اس طرح لکھا ہے
چنانچہ جب 26 رجب المرجب 1309ھ کو دیوان صاحب باغ میں عربی مدرسہ محمدی کی بنیاد رکھی گئی تو حلیمہ بی ہی نے اس مدرسہ کی عمارت کے لیے موجودہ زمین وقف کی تھی"[6]
وفات
15 ربیع الاول 1346ھ(1927ء) کو آپ کی وفات ہوئی، مدراس ہی میں تدفین عمل میں آئی
آپ کی وفات کے بعد آپ کے نامور فرزند مفتی قاضی حبیب اللہ مدراسی آپ کے جانشین ہوئے اور آپ کے نام کو روشن کیا، اللہ مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے آمین
- ↑ مفتی قاضی حبیب اللہ، از عبید اللہ ایم اے صفحہ 13
- ↑ صحبتے با اہل دل، صفحہ 33، از مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی
- ↑ تاریخ النوائط، صفحہ 350، ناشر عزیز المطابع
- ↑ نزهة الخواطر 8/1299، مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی
- ↑ حاشیہ امام اہل السنت علامہ محمد عبد الشکور فاروقی لکھنوی حیات و خدمات، از پروفیسر محمد عبد الحی فاروقی، صفحہ 168، ناشر ادارہ تحقیقات اہل السنت
- ↑ خانوادہ قاضی بدر الدولہ، جلد اول،از پروفیسر محمد یوسف کوکن عمری، صفحہ 499