منگول سلطنت
منگول سلطنت' تیرھویں اور چودھویں صدیوں میں ایشیا میں قائم کی گئی- یہ سلطنت مشرقی یورپ تک پھیلی ہوئی تھی- 1206 ء میں چنگیز خان نے اپنے آپ کو مغل قوم کا حاکم اعلان کیا- جب وہ 1227میں مرا تو وہ وسطی ایشیا ، شمالی چین اور مشرقی فارس کا کچھ حصه فتح کر چکا تھا - چنگیز خان كے بعد اس کے جانشینوں نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا- یہاں تک كے منگول سلطنت مشرقی یورپ سے مغربی ایشیا تک پھیل گئی جس میں مشرق وسطی اور وسطی ایشیا بھی شامل تھے-
منگول سلطنت Mongol Empire Ikh Mongol Uls | |
---|---|
1206–1368 | |
دار الحکومت | آورگا قراقرم[note 1] دادو[note 2] بیجنگ |
مذہب | سماواتیت، بعد میں بدھ مت، اسلام، مسیحیت اور دیگر |
حکومت | انتخابی بادشاہت |
عظیم خان | |
• 1206–1227 | چنگیز خان |
• 1229–1241 | اوکتائی خان |
• 1246–1248 | گیوک خان |
• 1251–1259 | منگوخان |
• 1260–1294 | قبلائی خان |
• 1333–1370 | توغان تیمور خان |
مقننہ | قورولتای |
تاریخ | |
• | 1206 |
• وفات چنگیز خان | 1227 |
• مغول امن معاہدہ | 1210–1350 |
• سلطنت کے پارہ سازی | 1260–1264 |
• | 1368 |
کرنسی | سکے درہم، سوخے، کاغذ پیسہ چاو |
موجودہ حصہ |
ابتدا
ترمیم1162 میں منگول کے ایک قبیلے کے ایک چھوٹے سردار کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جس، کا نام ”تیموجن“ رکھا گیا۔ جوان ہونے پر اس نے باہمی بر سر پیکار منگول قبیلوں کو متحد کرنے کی کوشش شروع کی 1206 میں وہ تمام قبیلوں کی حمایت حاصل کر نے کے اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا۔ جنھوں نے منگولیا کے ”نیلی جھیل“ کے کنارے جمع ہو کر ”تیموجن“ کو ”چنگیز خان“ کا خطاب دے کر اپنا مشترکہ لیڈر قرار دیا۔[1]مشترکہ لیڈر بن جانے کے بعد چنگیز خان نے بیرونی فتوحات کا آغاز کر دیا۔ 1209 میں شمال مغربی چین میں (شی شایا) کی ریاست کے خلاف کئی لڑائیاں لڑ کر اس کے بادشاہ کو باجگزار بنایا۔ اگلی مہم 1214 میں جن سلطنت کے خلاف شروع کی اور اس کی دار الحکومت ”بیجینگ“ پر قبضہ کر کے دریا زردکے شمال تک علاقہ منگولوں کے زیر تسلط کر دیا۔ چینی شہنشاہ نے فرار ہو کر نیا دار الحکومت جنوب میں قائم کیا۔[2]شمالی چین کو کنٹرول کرنے اور منگولیا سلطنت کو مستحکم کرنے کے بعد منگول لشکر مغربی جانب متحرک ہوئے۔ 1218 میں مشرقی ترکستان میں ایک حریف منگول قبیلے کی خاراختیا ریاست کو فتح کر کے ضم کر لیا۔ 1219 میں چنگیز خان نے مغربی ترکستان میں ترکستان، تاجکستان، ازبکستان کے علاوہ افغانستان اور ایران کے بعض حصوں پر مشتمل خوارزم بادشاہت کے خلاف لشکر کشی کی۔ بخارا، ثمر قند اور اس کے پایہ تخت ”اغنچ“ پر قبضہ کر لیا۔[3]شاہراہ ریشم پر واقع اس کے شاندار شہر ”مروی“ کو جلا کر راکھ کر دیا اس کے علاوہ ہرات، نیشاپور، غزنی، بلخ وغیرہ شہروں کو روندا علاؤ الدین خوارزم شاہ نے فرار ہو کر بحیرہ کسپئین کے ایک جزیرے پناہ لی اور وہاں جلدی فوت ہو گیا۔ جبکہ اس کے بعد اس کے بیٹے جلال الدین کے خلاف لڑائیوں میں چینگز خان نے 1221 میں دریا سندھ تک اس کا تعاقب کیا۔[4]کاکیشیا کے پار۔ 1223 میں چنگیز خان کے جرنیلوں نے بحیرہ کسپئین کے گرد ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے مشرقی یورپ پر یلغار کی۔ ”دریائے کالکا“ کے ساحلوں پر روسیوں کے ایک بڑے لشکر کو گھیر کر شکست دی۔ تاہم اس پہلی بار منگول یہاں قیام کیے بغیر واپس ہوئے اپنی موت سے قبل چنگیز خان کی آخری مہم مشرقی جانب شمالی چین میں اور جن بادشاہت کے مکمل خاتمہ کرنے کے مقصد سے تھی۔ 1224 میں چین کی ”جن بادشاہ“ کو شکست دے کر اس کی نئی دار الحکومت کیپینگ پر قبضہ کر لیا۔[5]1227چنگیز خان نے وفات سے قبل اپنے بیٹے تولی اور دیگر جرنیلوں کو وصیت کی کہ جنگ جاری رکھی جائے اور انھوں نے اپنی موت کو خفیہ رکھنے کا حکم دیا اور اوکتائی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ چنگیز خان نے تولی کو مشرقی علاقے اور چغتائی کو مغربی علاقے سونپ دیے۔ وصیت مکمل کرنے کے بعد، چنگیز خان کی وفات جنوبی چین کے علاقے "سنگ" میں ہوئی۔[6]
سلطنت کی تقسیم
ترمیمچنگیز خان کی وفات (1227) کے بعد، منگول سلطنت کے جانشینوں نے اس کی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا، جس سے سلطنت کی وسعت میں مزید اضافہ ہوا۔ چنگیز خان نے اپنی زندگی میں ہی اپنی سلطنت کو چار حصوں میں تقسیم کیا تھا، جنہیں "خانیت" کہا جاتا ہے اور ہر حصے کی قیادت اس کے بیٹوں یا پوتوں کے سپرد کی۔
چنگیز خان کا بیٹا اوکتائی خان نے سلطنت کا مرکزی حصہ سنبھالا اور وہ 1229 سے 1241 تک عظیم خان (Great Khan) کے طور پر حکمران رہا۔ اوکتائی نے منگول سلطنت کے انتظام کو مستحکم کیا اور اس کی حدود کو مزید پھیلایا۔ اس کا حکومتی مرکز موجودہ منگولیا میں تھا۔
گیوک خان، اوکتائی خان کا بیٹا تھا اور وہ 1246 سے 1251 تک عظیم خان رہا۔ اس کی حکمرانی کا مرکز منگول سلطنت کے مرکزی علاقوں میں تھا، لیکن اس نے سلطنت کی پھیلاؤ کو جاری رکھا اور اس کے زیرِ اثر علاقے مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا تک پھیل گئے۔
توغان خان چنگیز خان کا پوتا تھا اور اس کی حکمرانی کا مرکزی علاقہ مغربی منگولیا اور کچھ حصہ وسطی ایشیا تھا۔ توغان خان کی حکمرانی میں منگول سلطنت کے مغربی حصوں میں زیادہ توجہ دی گئی، خاص طور پر علاقے جو وسطی ایشیا اور افغانستان میں تھے۔
تیرہویں صدی کے اوائل میں چنگیز خان کی سلطنت یوریشیا میں سب سے بڑی سلطنت بن چکی تھی۔ چنگیز خان کے بعد اس کے پوتے، قبلائی خان نے حکومت چلانے کے طریقے میں تبدیلی کی، جو ان کے دادا کی خونریزی سے مختلف تھے۔ 13 ویں صدی کے وسط میں منگولوں نے چینی سونگ خاندان کے ساتھ مل کر اپنے دشمن جورچن کو شکست دی، لیکن بعد میں سونگ کے خلاف بھی ہو گئے۔ 1227 میں چنگیز خان کی وفات کے بعد قبلائی خان نے فتوحات کو جاری رکھا اور 1271 میں یوان خاندان کی حکومت کا اعلان کیا، جس سے منگولوں نے چین کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔[7]
چنگیز خان کے پوتے، باتو خان، نے 1236 سے روس کے خلاف مہمات کا آغاز کیا اور 1240 میں روس کے کئی شہر زیرِ تسلط کر لیے۔ ان کی قیادت میں، منگول سلطنت نے مشرقی یورپ تک اپنی حدود کو پھیلایا۔[8]
چنگیز خان کے بیٹے، تولی خان، نے جنوبی چین میں سونگ سلطنت کے خلاف جنگیں لڑیں اور 1279 میں سونگ سلطنت کو شکست دے کر چین کے جنوبی حصے کو منگول سلطنت میں شامل کیا[9]
چنگیز خان کے بیٹے، چغتائی خان، نے وسطی ایشیا کے علاقوں پر حکمرانی کی۔ ان کے تحت، منگول سلطنت نے ایران، افغانستان اور موجودہ وسطی ایشیا کے ممالک تک اپنی حدود کو وسعت دی۔[10]
یہ سبھی حکمران منگول سلطنت کی مختلف خانیتوں کے حکمران تھے اور ان کی حکمرانی کے علاقے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے تھے، جن میں منگولیا، وسطی ایشیا، چین اور مشرقی یورپ شامل تھے۔
زوال
ترمیممنگول سلطنت تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت تھی، جو چنگیز خان کی قیادت میں 13 ویں صدی کے آغاز میں قائم ہوئی تھی۔ اس سلطنت کا آغاز ایک طاقتور فوجی مہم کے ذریعے ہوا، جس نے یوریشیا کے بیشتر حصوں کو فتح کیا۔ لیکن سلطنت کا زوال ایک طویل اور پیچیدہ عمل تھا جس میں مختلف سیاسی، اقتصادی، سماجی اور فوجی عوامل شامل تھے۔
چنگیز خان کی وفات 1227 میں ہوئی اور اس کے بعد سلطنت میں ایک قدرتی خلا پیدا ہو گیا۔ اس کے جانشینوں نے اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی، لیکن سلطنت کے وسیع حصوں کی حکمرانی ایک ہی شخص کے ہاتھوں میں مرکوز کرنے کی بجائے مختلف بیٹوں اور پوتوں کے درمیان تقسیم ہو گئی۔ اس تقسیم نے سلطنت میں عدم استحکام پیدا کیا، کیونکہ ہر خانیت اپنے مفادات کے مطابق حکمرانی کرتی تھی اور بعض اوقات آپس میں متضاد پالیسیوں کی پیروی کرتی تھی۔
چنگیز خان نے اپنی سلطنت کو مختلف خانیتوں میں تقسیم کیا تھا، جن کی قیادت اس کے بیٹوں اور پوتوں کے ہاتھ میں تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خانیتیں اپنی خود مختاری کی طرف مائل ہو گئیں اور ان کے درمیان اقتدار کی کشمکش بڑھ گئی۔ مثال کے طور پر، خانیتِ یوان (چین) اور خانیتِ چغتائی (وسطی ایشیا) کے درمیان اختلافات بڑھنے لگے اور ان خانیتوں میں آپسی جنگیں اور تصادمات نے سلطنت کے استحکام کو مزید نقصان پہنچایا۔
منگول سلطنت کی عظمت کا ایک حصہ اس کی کامیاب فوجی فتوحات اور تجارت میں شامل تھا۔ تاہم، سلطنت کے زوال کے دوران اقتصادی مسائل بڑھنے لگے۔ سلطنت کی فوجی مہمات اور فتوحات کے ساتھ ساتھ ان کے انتظامی اخراجات بھی بڑھ گئے تھے، جس کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہوا۔ مزید برآں، مرکزی حکومتی انتظام کی عدم موجودگی اور مقامی حکام کے درمیان بدعنوانی نے داخلی فساد کو جنم دیا، جو سلطنت کی طاقت کے ٹوٹنے کا سبب بنے۔
چنگیز خان کی فوج نے چین کے سونگ خاندان کو شکست دی تھی اور اس کے پوتے، قبلائی خان نے یوان خاندان قائم کیا۔ تاہم، یوان خاندان کے زیرِ اثر چین میں نسلی کشمکش اور اقتصادی مشکلات بڑھ گئیں۔ یوان خاندان کی حکمرانی کے دوران، چینی عوام کی مزاحمت بڑھنے لگی اور آخرکار 1368 میں چین میں منگ خاندان نے یوان خاندان کو معزول کر دیا، جس کے بعد منگول سلطنت کا چینی حصہ ٹوٹ کر ختم ہو گیا۔
منگول سلطنت کے مغربی حصے میں روس، ایران اور وسطی ایشیا کے علاقے شامل تھے۔ ان علاقوں میں مقامی حکومتوں نے سلطنت کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور اپنی خود مختاری کے لیے جنگیں لڑیں۔ اس دوران، باتو خان کی قیادت میں مغربی منگولوں نے یورپ کی طرف پیش قدمی کی تھی، لیکن یہ تسلسل قائم نہ رہ سکا۔ ایران اور وسطی ایشیا میں سلطنت کے زوال نے ان خطوں میں مزید تقسیم پیدا کی اور یہ علاقے کسی مرکزی حکمران کے زیرِ اثر نہیں رہے۔
منگول سلطنت کا زوال نہ صرف داخلی عوامل کی وجہ سے تھا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نیا سیاسی اور تجارتی ماحول ابھرا۔ یورپ میں رینیسانس کے آغاز اور تجارتی راستوں کے نئے راستوں کی دریافت نے منگول سلطنت کے تجارتی نظام کو متاثر کیا۔ یورپ میں آبادکاری اور نئے سلطنتوں کے ابھرنے نے منگول سلطنت کی عالمی حیثیت کو کمزور کر دیا۔
منگول سلطنت کا مکمل زوال 14 ویں صدی کے آخر تک مکمل ہو چکا تھا۔ یوان خاندان کے خاتمے کے بعد چین میں منگ سلطنت کی حکمرانی قائم ہوئی، جبکہ مغربی علاقوں میں بھی منگولوں کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اس کے علاوہ، کئی علاقوں میں مقامی حکمرانوں نے سلطنت سے آزادی حاصل کی اور نئی سلطنتیں قائم کیں۔ آخرکار، 15 ویں صدی تک منگول سلطنت کا کوئی واضح وجود باقی نہیں رہا۔
منگول سلطنت کا زوال ایک قدرتی نتیجہ تھا اس کی داخلی بدعنوانی، خانیتوں کے درمیان اختلافات، اقتصادی مشکلات اور عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا۔ یہ سلطنت جو کبھی دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی، اپنے پھیلاؤ کے بعد اندرونی تقسیم اور سیاسی بد انتظامی کا شکار ہو گئی۔ اس کے باوجود، منگول سلطنت کی وراثت آج بھی مختلف خطوں کی تاریخ اور ثقافت پر اثر انداز ہے۔
فہرست حکمران مغول سلطنت
ترمیماس عنوان کے لیے مزید پڑھیں، فہرست خاقان مغول
بیرونی روابط
ترمیم- Mongolsآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ accd.edu (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ "سعادت حسن منٹو - ڈرامہ"۔ Rekhta۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ "قبلائی خان: منگول خاندان کے وہ فرمانروا جنھوں نے چین پر قبضہ بھی کیا اور اسے دنیا سے بھی ملایا"۔ 12 may 2021
{{حوالہ ویب}}
: تحقق من التاريخ في:|date=
(معاونت) - ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
- ↑ انور جلال (19 ستمبر 2023)۔ "منگول سلطنت (ایک مختصر تذکرہ)"۔ ہم سب۔ اخذ شدہ بتاریخ 2024-12-28
حواشی
ترمیم- ↑ The actual foundation of this city did not occur until 1220، and served as the capital of the Mongol Empire as least until 1259.
- ↑ After the death of Möngke Khan in 1259، there was no single major city in the empire، with Dadu being the capital of the یوآن خاندان from 1272 to 1368.