چاشنی گیر
چاشنی گیر (کھانا چکھنے والا) وہ شخص ہوتا ہے جو کسی اور کے لیے تیار کیے گئے کھانے کو کھا کر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ وہ کھانے کے لیے محفوظ ہے۔ عام طور پر یہ خدمات کسی اہم شخصیت، جیسے بادشاہ یا کسی ایسے فرد کے لیے فراہم کی جاتی ہیں جو قتل یا کسی قسم کے نقصان کے خطرے سے دوچار ہو۔
اسلامی تاریخ میں
ترمیمسلجوقیوں کے عہد سے مسلمان حکمرانوں (بشمول ممالیک) کے درباروں میں ایک عہدے دار تھا جو عموماً "امیر" کا رتبہ رکھتا تھا، خصوصاً عثمانی ترکوں میں۔
سلطنت عثمانیہ
ترمیمیہ عثمانی ترکوں کے دربار کا اعلی عہدے دار ہوتا تھا جسے "چشنیجی باشی" (Çeşnicibaşı) کہتے تھے، اس کا مطلب "سب سے بڑا چکھنے والا" ہے۔ سلجوقیوں اور دیگر آناطولی خاندانوں کے بادشاہوں کے زمانے میں "چاشنی گیر"، "امیر چاشنی گیر" یا "امیر ذواق" سلطان کے اہم ترین عہدے داروں میں ہوتا تھا۔ ابن بی بی نے چاشنی گیر کا ذکر "میر آخور" اور "امیر مجلس" کے ساتھ کیا ہے۔ قانون نامہ محمد ثانی میں چشنیجی باشی آغائے رکاب کے طور پر اس زمرے میں دکھائی دیتا ہے جس کی قیادت ینی چریوں کا آغا کرتا تھا۔ رتبے کے اعتبار سے اس کا نام "میر عالم"، "کپچی باشی" "میر آخور"، "چکیر جی باشی" اور بلوک کے آغاؤں سے پہلے آتا ہے۔ 883ھ / 1478ء یا 1479ء کی ایک دستاویز میں بارہ ذواقین کے نام درج ہیں، جو اپنے امیر سنان بے کے ماتحت تھے۔ آگے چل کر ذواقین کی تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا، یہاں تک کہ وہ ایک سو سترہ تک پہنچ گئی۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں d'Ohsson نے ان کی تعداد صرف پچاس بتائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ چشنیجی باشی مطبخوں کے امیروں کے تحت "بیرون" (بیرونی عہدے داروں) کے پانچویں درجے میں ایک نہایت ہی معمولی عہدہ تھا۔ جس زمانے کا حال انھوں نے لکھا ہے اس تک پہنچتے پہنچتے اس عہدے کا مرتبہ بہت کم ہو گیا تھا اور اس کے فرائض صرف کھانا چکھنے تک محدود ہو کر رہ گئے۔[1]
مغلیہ سلطنت
ترمیمبابر نامہ میں "چاشنی گیر" کا حوالہ موجود ہے، جس کا کام ہندوستانی باورچیوں کے کھانے چکھنا تھا۔[2]
ڈاکٹر نور السعید اختر لکھتے ہیں کہ بابر کو ایرانی کھانوں جیسے شیر برنج، دم پخت، چلو کباب اور آش سے گہرا لگاؤ تھا، مگر ہندوستانی کھانوں سے بھی رغبت پیدا ہوئی۔ ایک موقع پر بابر نے ابراہیم لودھی کے شاہی طباخ سے خرگوش کے گوشت کی فرمائش کی۔ طباخ نے موقع غنیمت جان کر زہر آلود سالن پیش کیا، جو بابر کی موت کا سبب بنا۔ بابر نے اپنی خود نوشتہ سوانح حیات میں اس واقعے کا تذکرہ کیا ہے۔ امکان ہے کہ اسی سانحے کے بعد مغلیہ درباروں میں چاشنی گیروں کا تقرر عمل میں آیا، جو شاہی کھانوں کو چکھ کر ان کی حفاظت اور معیار یقینی بناتے تھے۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مولوی محمد شفیع (1971)۔ اردو دائرۂ معارف اسلامیہ۔ زیرِ اہتمام: دانش گاہِ پنجاب (دوسرا ایڈیشن)۔ لاہور: جامعہ پنجاب۔ ج 7۔ ص 610
- ↑ عرفان جاوید (23 فروری 2020)۔ "خمارِ گندم (قسط نمبر 4)"۔ روزنامہ جنگ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2025-01-13
- ↑ نور السعید اختر (2000)۔ تیشۂ فرہاد۔ ممبئی: فاران پبلشرز۔ ص 9