کوہستانی زبان
اس مضمون یا قطعے کو انڈس کوہستانی زبان میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
کوہستانی زبان خیبرپختونخوا کی ایک زبان ہے۔ اس زبان کو ایک علاقائی زبان دینے کا مطالبہ 2015ء سے زور پکڑ رہا ہے جبکہ ایک اعلٰی وفد نے ریاستی وزیر اعلٰی سے ملکر اس بات کا مطالبہ کیا تھا۔[1]
انڈس کوہستانی زبان کا لسانی تعلق:
ہندیورپی⇽ ہندایرانی⇽ ہندآرہائی⇽ شمال مغربی لسانی گروہ⇽ داردی لسانی گروہ⇽ کوہستانی لسانی گروہ⇽ انڈس کوہستانی
لسانی علاقہ و آبادی:
- ضلع لوئر کوہستان: دریائے سندھ کے مغربی علاقے بنکھڈ، دُبیر، پٹن، ججیال، کیال
- ضلع اپر کوہستان: دریائے سندھ کے مغربی علاقے سیؤ، رازکہ اور کندیا وادی
- موجودہ تعداد: 279079 تک (ِ2017)
انڈس کوہستانی زبان داردی لسانی گروہ کی کوہستانی ذیلی شاخ سے تعلق رکھتی ہے جو ضلع لوئر کوہستان اور اپر کوہستان میں وادی کندیا، سیؤ اور رازکہ کے علاقے میں بولی جاتی ہے۔
اس کیلئے علاوہ کوہستانی زبان بولنے والے لوگوں کی تعداد ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے خصوصاً گلگت بلتستان ، وادی کمراٹ اور کالام میں اچھی خاصی تعداد کوہستانی (انڈس کوہستانی) بولنے والے لوگ رہائش پذیر ہیں ۔
یہ شینا کوہستانی زبان کی ہمسایہ زبان ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ بھاری لُغوی لسانی اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس زبان میں بہت کم تحریری مواد پایا جاتا۔ پُرانے وقتوں اور کتابوں میں اس زُبان کو ”مَائیاں یا مَئییاں“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ مقامی سطح پر اس زُبان کو کِھلچو/کِھلوچی، پَٹون٘چی، دُبیری بھی کہا جاتا ہے۔ محققین اس زُبان کو انڈس کوہستانی کا نام دیتے ہیں تا کہ کوہستانی زبانوں کے ذیلی گروہ میں اسے انڈس کوہستان سے شناخت کیا جا سکے۔ اس زُبان میں قرآن مجید کی تفسیر مولانا غلام عیسی مرحوم کئی سال پہلے لکھ چکے ہیں۔ ایک ابتدائی قاعدہ جناب م ش رشید اور ایک کہاؤتوں کی کتاب جناب طالب جان آباسندھی نے مرتب اور شائع کی ہے تاہم بہت کم تحریری مواد پایا جاتا ہے۔ اس میں روایتی لوک ادب اور لوک شاعری کی کئی اصناف پائی جاتی ہیں۔ اس زبان میں ریڈیائی پروگرام بھی نشر ہو رہے ہیں۔
اس زبان کا نام ”انڈس کوہستانی“ بہت ہی جدید نام ہے جو لسانی تحقیق کرنے والوں نے اہنی سہولت کے لیے دیا ہے اہل زبان نے نہیں۔ اہل زبان اسے اپنے مخصوص نام ” کوستَئیں“ یا پھر کِھلچو/کِھلوچی، پَٹونچی، دُبیری کا نام دیتے ہیں۔ یہ علاقہ بحرین کی زبان توروالی کے قریب ہے۔