احمد ندیم قاسمی

شاعر افسانہ نگار

احمد ندیم قاسمی (20 نومبر 1916ء تا 10 جولائی 2006ء) پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین میں شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ قاسمی صاحب نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔[3]

احمد ندیم قاسمی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 20 نومبر 1916ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
انگہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 جولا‎ئی 2006ء (90 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات دمہ   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر [1]،  صحافی [2]،  فلسفی ،  ادبی نقاد ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک ترقی پسند تحریک   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
دستخط
 
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

ابتدائی حالات

ترمیم

احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں 20؍نومبر1916ء کو پیدا ہوئے۔ اصل نام احمد شاہ اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔جب کہ ندیم ان کا تخلص تھا۔اپنے پردادا محمد قاسم کی رعایت سے ’’قاسمی‘‘ کہلائے، اِن کے والد پیر غلام نبی اور والدہ غلام بی بی تھیں۔

تعلیم

ترمیم

آپ کے والد پیر غلام نبی مرحوم اپنی عبادت، زہد اور تقویٰ کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے۔ ندیم کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ 1920ء میں انگہ کی مسجد میں قرآن مجید کا درس لیا۔ 1923ء میں والد کے انتقال کے بعد اپنے چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور چلے گئے۔ وہاں مذہبی، عملی اور شاعرانہ ماحول میسر آیا۔ 1921ء - 1925ء میں گورنمنٹ مڈل اینڈ نارمل اسکول کیمبل پور (اٹک) میں تعلیم پائی۔ 1930ء-1931ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کیا اور 1931ء صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں داخل ہو گئے جہاں سے 1935ء میں بی اے کیا۔

حالات زندگی

ترمیم

قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گذر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدہ تو پہلے ہی سے تھے، ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔ اختر شیرانی رند بلانوش تھے لیکن ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے کے باوجود قاسمی صاحب نے کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کی طبیعت میں لاابالی پن آیا۔ اس سے ان کے مزاج کی استقامت اور اپنے آپ پر قابو رکھنے کی ان کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اختر شیرانی کی شاعری اور شخصیت سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخر تک رہا۔

اسی دوران احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے پھول کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا۔ اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔[3]

ملازمت

ترمیم

1936ء میں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے اور 1937ء تک یہیں کام کرتے رہے۔ 1939ء - 41ء کے دوران ایکسائز سب انسپکٹر کے طور پر ملازمت کی۔

1939ء میں محکمہ آبکاری میں ملازم ہو گئے۔ 1942ء میں مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے۔ تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی 1943ء میں (ادب لطیف) کے ایڈیٹر مقرر ہوئے 1945ء - 48ء میں ریڈیو پشاور سے بحیثیت اسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے تقسیم کے بعد ڈیڑھ سال ریڈیو پشاور میں ملازم رہے۔

1948ء میں ریڈیو پاکستان کی ملازمت چھوڑ دی اور واپس لاہور چلے آئے یہاں انھوں نے ہاجرہ مسرور کے ساتھ مل کر ایک نئے ادبی رسالے ’’نقوش‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک کامیاب رسالہ ثابت ہوا۔[4]

شہرت

ترمیم

قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931ء میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ سیاست لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934ء اور 1937ء کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ انقلاب لاہور اور زمیندار لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔[5]

صحافتی سرگرمیاں

ترمیم
  • 1941-45ء میں ہفت روزہ ’پھول‘
  • 1943-45ء ’تہذیبِ نسواں ‘
  • ماہنامہ ادبِ لطیف
  • 1947-48ء میں ماہنامہ سویرا (چار شماروں)
  • 1950ء میں ماہنامہ ’’سحر‘‘ لاہور (ایک شمارہ)
  • 1953-59ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور کی ادارت
  • 1964ء سے ماہنامہ ’’فنون‘‘ کی ادارت
  • 1952ء میں روزنامہ ’امروز‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ لکھتے رہے
  • روزنامہ ’امروز‘ لاہور اخبار کے ایڈیٹر بن جانے پر کالم ’’پنج دریا‘‘ بھی لکھتے رہے۔
  • 1959ء میں امروز سے الگ ہونے پر روزنامہ ہلالِ پاکستان میں ’’موج در موج‘‘ اور ’پنج دریا‘ کے نام سے فکاہیہ کالم نویسی۔
  • 1964-70ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ لاہور میں کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کی شروعات کی مگر پنج دریا کی بجائے نام ’’عنقا‘‘ رکھ لیا۔
  • 1970ء کے دوران ‘‘روزنامہ جنگ‘‘ کراچی میں کالم ’’لاہور۔ لاہور ہے۔ ‘‘
  • پھر جنگ کو چھوڑ کر روزنامہ حریت کراچی میں فکاہیہ کالم ’’موج در موج‘‘ اور ہفتہ وار کالم ’’لاہوریات‘‘ پیش کرتے رہے۔
  • اپریل 1972ء میں دوبارہ امروز میں وہی کالم لکھنے لگے۔
  • 1964ء سے امروز لاہور میں ادبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر ہر ہفتے مضامین لکھتے رہے۔
  • ہاجرہ مسرور سے مل کر (نقوش) کی ادارت سنبھالی اور امروز سے بھی وابستہ رہے۔ حرف و حکایت والا کالم عنقا کے قلمی نام سے لکھتے رہے۔
  • (فنون) ادبی پرچہ ان کے زیر نگرانی نکل رہا تھا۔

بے شمار کتب تصنیف کیں اور ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ افسانے اور غزل کے حوالے بہت شہرت حاصل کی۔

ادبی کا رہائے نمایاں

ترمیم

پہلا شعر: 1926-27 میں پہلا شعر کہا۔ پہلی مطبوعہ تخلیقات:پہلی نظم 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر کہی جو روز نامہ ’سیاست‘ لاہور میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ 1942ء میں اردو اکیڈمی لاہور سے اور پہلا افسانوی مجموعہ 1939ء میں شائع ہوا۔

انجمن ترقی پسند

ترمیم

1936 میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد قاسمی صاحب نے اس انجمن سے وابستگی اختیار کر لی تھی۔ وہ انجمن کے سکریٹری بھی رہے لیکن آگے چل کر جب انجمن نظریاتی تشدد پسندی کا شکار ہوئی تو قاسمی صاحب نے اس کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی،

افسانوی مجموعے

ترمیم
  1. چوپال (دار الاشاعت پنجاب، لاہور 1939)
  2. بگولے (مکتبہ اردو، لاہور 1941)
  3. طلوع و غروب (مکتبہ اردو، لاہور 1942)
  4. گرداب (ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن1943)
  5. سیلاب (ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن 1943)
  6. آنچل(ادارہ فروغ اردو، لاہور 1944)
  7. آبلے {تین طویل کہانیاں} (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1946)
  8. آس پاس (مکتبہ فسانہ خواں، لاہور 1948)
  9. در و دیوار (مکتبہ اردو، لاہور 1948)
  10. سناٹا (نیا ادارہ، لاہور 1952)
  11. بازارِ حیات (ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1959)
  12. برگِ حنا (ناشرین، لاہور 1959)
  13. سیلاب و گرداب (مکتبہ کارواں، لاہور 1961)
  14. گھر سے گھر تک (راول کتاب گھر، راولپنڈی 1963)
  15. کپاس کا پھول (مکتبہ فنون، لاہور 1973)
  16. نیلا پتھر (غالب پبلشرز، لاہور 1980)
  17. کوہ پیما (اساطیر، لاہور 1995)
  18. پت جھڑ(آخری افسانے اور ناولٹ)
  19. اس راستے پر(ناولٹ)

شاعری

ترمیم
  1. دھڑکنیں (قطعات- اردو اکیڈمی، لاہور 1942)
  2. رِم جھم (قطعات و رباعیات- ادارہ فروغِ اردو، لاہور 1944)
  3. جلال و جمال (شاعری- نیا ادارہ، لاہور 1946)
  4. شعلۂ گُل (قومی دار الاشاعت، لاہور 1953)
  5. دشتِ وفا (کتاب نما، لاہور 1963)
  6. محیط (التحریر، لاہور 1976)
  7. دوام (مطبوعات، لاہور 1979)
  8. لوح خاک (اساطیر، لاہور 1988)
  9. ارض و سماء(آخری مجموعہ کلام)
  10. بسیط
  11. ندیم کی نظمیں
  12. ندیم کی غزلیں
  13. احمد ندیم قاسمی کی منتخب نظمیں(ڈاکٹر ناہید قاسمی)
  14. ندیم بیت بازی
  15. انوار جمال(حمد، دعا،نعت،سلام)

تحقیق و تنقید

ترمیم
  1. تہذیب و فن (پاکستان فاؤنڈیشن، لاہور 1975)
  2. ادب اور تعلیم کے رشتے (التحریر، لاہور 1974)
  3. علامہ محمد اقبال
  4. میرے ہم قدم (شخصی خاکے)
  5. کیسر کیاری(فکاہی کالم اور مزاحیہ مضامین)

ترتیب و ترجمہ

ترمیم
  1. انگڑائیاں (مرد افسانہ نگاروں کا انتخاب- ادارہ اشاعت اردو، حیدرآباد دکن 1944)
  2. نقوشِ لطیف (خواتین افسانہ نگاروں کا انتخاب- ادارہ اشاعتِ اردو، حیدرآباد دکن 1944)
  3. پاکستان کی لوک کہانیاں (از میریلن سرچ- ترجمہ، شیخ علی اینڈ سنز، لاہور)
  4. کیسر کیاری (مضامین، ڈرامے، تراجم- مکتبہ شعر و ادب، لاہور 1944)
  5. منٹو کے خطوط بنام احمد ندیم قاسمی (ترتیب- کتاب نما، لاہور 1966)
  6. نذیر حمید احمد خاں (ترتیب- مجلس ترقی ادب، لاہور 1977) میرے ہم سفر

بچوں کا ادب

ترمیم
  1. تین ناٹک (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944)
  2. دوستوں کی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944)
  3. نئی نویلی کہانیاں (پنجاب بک ایجنسی، لاہور 1944)

قاسمی سے متعلق کتابیں اور خصوصی نمبر

ترمیم
  1. ندیم کی شاعری اور شخصیت (تحقیق) جمیل ملک۔
  2. احمد ندیم قاسمی : شخصیت اور فن / ناھید قاسمی ; تدوین و طباعت، سعیدہ درانی 2009، اکادمی ادبیات
  3. احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانے، مرتب مظفر علی سید
  4. ندیم نامہ، مرتب محمد طفیل، بشیر موجد مجلسِ ارباب فن، لاہور 1974
  5. ندیم نامہ احمد ندیم قاسمی یادگاری کتاب

by (اسلم فرخی)

  1. مٹی کا سمندر، مرتب ضیا ساجد مکتبہ القریش، لاہور 1991
  2. احمد ندیم قاسمی، ایک لیجنڈ- از شکیل الرحمٰن، اساطیر، لاہور
  3. ندیم نمبر، مرتب صہبا لکھنوی ماہنامہ افکار، کراچی 1976
  4. احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن، مرتب: نند کشور و کرم۔ عالمی اردو ادب، دہلی 1996۔
  5. ہندی میں ’’اردو کہانی کار احمد ندیم قاسمی‘‘ مرتب نند کشور وکرم اندر پرستھ پرکاشن دہلی
  6. آدھی ملاقات (مکتوبات) احمدندیم قاسمی بنام محمدفاضل مرتب خورشید ربانی پورب اکادمی2007۔
  7. صبح صد رنگ ندیم، احمد ندیم قاسمی :شخصیت و فن

آن لائن ریختہ اور سمت نے قاسمی نمبر نکالے ماہ نو کے علاوہ سہ ماہی فنون اور سہ ماہی ادبیات نے بھی قاسمی نمبر کی اشاعت کی

اس کے علاوہ انگریزی، روسی، چینی،جاپانی، ہندی، پنجابی، بنگلہ، سندھی، گجراتی مراٹھی اور فارسی وغیرہ متعدد زبانوں میں کہانیوں اور شاعری کے تراجم۔

اعزازات

ترمیم

وفات

ترمیم

احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصر علالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریبا 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انھیں سانس کی تکلیف کے بعد لاہور کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انھیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا تھا، لاہور ہی میں ملتان روڈ پر ملت پارک کے نزدیک شیخ المشائخ قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ div style="text-align: center;">

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن ............ یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا

ترمیم

10جولائی 2009ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے احمد ندیم قاسمی کی تیسری برسی کے موقع پر ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پراحمد ندیم قاسمی کا ایک خوب صورت پورٹریٹ شائع کیا گیا تھا۔ پانچ روپیہ مالیت کا یہ ڈاک ٹکٹ فیضی امیر صدیقی نے ڈیزائن کیا تھااوراس پر انگریزی میں3RD DEATH ANNIVERSARY OF AHMAD NADEEM QASMI 1916-2006 کے الفاظ تحریر تھے.

قاسمی کہانی

ترمیم

احمد ندیم قاسمی کی تحریروں پر مبنی ڈرامائی سلسلہ ہے جو پاکستان ٹیلی وژن پر ستر کی دہائی کے دوران پیش کیا گیا تھا ۔ اس کے ڈائریکٹر ایوب خاور تھے

اولاد

ترمیم

.1 بڑی بیٹی۔ ناہید ندیم (ناہید قاسمی) شاعرہ ہیں۔ .2 نشاط ندیم بھی شعر کہتی تھیں، 1995 میں انتقال ہو گیا۔ .3 بیٹا نعمان ندیم

قاسمیات

ترمیم
  • احمد شاہ سے احمد ندیم قاسمی تک (محمد عباس طوروی)
  • مٹی کا سمندر : عظیم شاعر و ادیب احمد ندیم قاسمی کے فن اور شخصیّت کا بھرپور تعارف (ضیاء ساجد)
  • احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری (ڈاکٹر قاسم ظفر خان)

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ناشر: کتب خانہ کانگریس — Library of Congress Control Number (LCCN) (bibliographic): https://www.loc.gov/item/n81032097/
  2. کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی: https://id.loc.gov/authorities/n81032097
  3. ^ ا ب ڈاکٹر فیروز عالم (معاون مدیر اردو دنیا)۔ "احمد ندیم قاسمی نمبر" 
  4. ارتقا حیات۔ "احمد ندیم قاسمی" 
  5. نند کشور وکرم۔ "احمد ندیم قاسمی۔ ایک ہشت پہلو شخصیت"