ملتان

پنجاب، پاکستان کا ایک شہر

ملتان پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک اہم شہر ہے اور جنوبی پنجاب کا سیاسی اور ثقافتی مرکز ہے۔ یہ شہر دریائے چناب کے کنارے آباد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا پانچواں بڑا شہر ہے۔ یہاں سرائیکی اکثریت میں ہیں۔ یہ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر، ضلع ملتان اور تحصیل ملتان کا صدر مقام بھی ہے۔ بقیہ تحصیلوں میں صدر ملتان، تحصیل شجاع آباد اورتحصیل جلال پورپیروالہ شامل ہیں۔


Multan
میٹروپولس
اوپر سے گھڑی وار: تیرہویں صدی بہاؤ الدین زکریا درگاہ، شاہی عید گاہ مسجد، ملتان کا گھنٹہ گھر، چودہویں صدی مقبرہ شاہ رکن عالم، مقبرہ شمس الدین سبزواری، مقبرہ شاہ گردیز
عرفیت: اولیا کا شہر
ملتان is located in پاکستان
ملتان
ملتان
ملتان is located in پنجاب، پاکستان
ملتان
ملتان
پاکستان میں مقام
متناسقات: 30°11′52″N 71°28′11″E / 30.19778°N 71.46972°E / 30.19778; 71.46972
ملک پاکستان
صوبہپنجاب
ضلعملتان
خود مختار ٹاؤن6
یونین کونسل4
رقبہ
 • کل781 کلومیٹر2 (302 میل مربع)
بلند ترین  پیمائش129 m میل (423 ft فٹ)
آبادی (2017)
 • کل1,871,843[1]
 • کثافت925.4/کلومیٹر2 (2,396.7/میل مربع)
 • نام آبادیملتانی
منطقۂ وقتپاکستان کا معیاری وقت (UTC+05:00)
ٹیلی فون کوڈ061

ملتان کا نام

ترمیم

ایک قوم جس کا نام مالی تھا یہاں آکر آباد ہوئی اور سنسکرت میں آباد ہونے کو استھان “[4]“ کہتے ہیں یوں اس کا نام مالی استھان پڑ گیا جو رفتہ رفتہ" مالی تان "بن گیا پھر وقت کے ساتھ ساتھ مالیتان ، مولتان اور اب ملتان بن گیا ہے۔سکندر بن فیلقوس کے زمانہ میں یہ مالی قوم کا دار الخلافہ تھا۔ اسی مالی قوم کی نسبت سے اس کا نام مالی تان پڑا۔ جنرل کنگھم کی رائے میں ملتان کی وجہ تسمیہ مول دیوتا یعنی سورج کا مندر ہے ۔ 714 عیسوی میں جب محمد قاسم ثقفی نے اس شہر کو فتح کیا تو وہ مندر موجود تھا۔ بلازری (متوفی 875 عیسوی) نے بھی سورت کے بت کا ذکر کیا ۔ ابن ہرقل 976 عیسوی میں کہتا ہے کہ بت آدمی کی شکل کا تھا۔ اس کے بعد جب قرامطہ کا عمل دخل ہوا تو مندر کی جگہ مسجد بنائی گئی [5] لیکن اس مندر کے آثار آج بھی موجود ہیں۔

انتظامی ٹاؤنز

ترمیم
  1. شاہ رکن عالم ٹاؤن
  2. شیر شاہ جانگلہ ٹاؤن
  3. بستی تھہیم نگر ٹاؤن
  4. بوسن ٹاؤن
  5. موسیٰ پاک شہید ٹاؤن
  6. تحصیل شجاع آباد ٹاؤن
  7. تحصیل جلال پورپیروالہ ٹاؤن

تاریخ

ترمیم

ملتان کی تاریخ کی بات کریں تو 327 قبل مسیح میں جہلم اور گجرات کی فتح کے بعد سکندر کی فوج تھکاوٹ کی وجہ سے مزید آگے نہیں بڑھناچاہتی تھی لیکن سکندر نے اپنی فوج کوآگے بڑھنے کا حکم دیا انھیں دولت کا لالچ دیا زرخیز زمینوں پر قبضے کی امید دلائی یہ فوج ملتان کی طرف بڑھی یہاں ملوئی قوم آباد تھی جن کی شجاعت اور بہادری کی داستانیں پھیلی ہوئی تھیں جب سکندری افواج ملتان پر حملہ آور ہوئیں تو اس قوم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اس مہم کے دوران سکندر کی کمر میں تیر لگا جو ریڑھ کی ہڈی میں پیوست ہو گیا حکماء کی کوششوں کے باوجود یہ تیر نہ نکل سکا اس پر انھوں نے تیر کا کچھ حصہ کاٹ دیا تاکہ سکندر جنگ جاری رکھ سکے ۔ تاہم کچھ دنوں بعد ملتان فتح ہو گیا یہاں یونانی فوج نے اپنے بادشاہ کے زخمی ہونے کا بھیانک انتقام لیا کہ شہر میں کسی کو زندہ نہ چھوڑا۔ اسلامی تاریخ کی بات کی جائے تو ملتان کو سب سے پہلے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اسلامی سلطنت ی بنیاد رکھی۔محمد بن قاسم کے بعد 997 عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کیا اور اسے اپنی حکومت میں شامل کیا، 571 ہجری بمطابق 1175 عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لیا۔سلطان غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اس کو اپنا پایہ تخت بنائے رکھا،جن میں خاندانِ غلاماں ،خاندانِ خلجی،خاندانِ تغلق،خاندانِ سادات خاندانِ لودھی اور پھر مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا، 1857 کی جنگ ِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ملتان پر مکمل قبضہ کر لیا۔اور 1947 تک بریٹش امپائر کے کنٹرول میں رہا۔آزادی کے بعد یہ پاکستان کا حصہ بنا۔


ملتان کی تاریخ میں قلعہ ملتان کی بہت اہمیت حاصل ہے۔ ملتان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ بہت سے شہر آباد ہوئے مگر گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ، لیکن شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے ۔ ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کر نے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے۔ ملتان کے بارے میں جس ہستی نے یہ لافانی شعر کہا، وہ ہستی خود کیا تھی؟ اس کا اپنا مقام اور مرتبہ کیا تھا؟ اور اس نے انسانیت کے لیے کیا کیا خدمات سر انجام دیں؟ اس بات کی تفصیل کے لیے ایک مضمون نہیں بلکہ کئی کتب کی ضرورت ہے، حضرت بہاؤ الدین زکریا کی شخصیت اور خدمات بارے کچھ کتابیں مارکیٹ سے تو مل جاتی ہیں مگر ان میں مذکور مضامین کی حیثیت سطحی ہے، زکریا سئیں کو نئے سرے سے جاننے اور نئے سرے سے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ غوث العالمین، شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی 27 رمضان 566ھ حضرت مخدوم وجیہہ الدین محمدغوث کے ہاں پیدا ہوئے، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طئے ہوئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے، بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے روحانی فیض حاصل کیا، سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کے لیے کام کرنے کی تلقین فرمائی، ملتان میں ان دنوں ہندوؤں کا غلبہ تھا اور پرہلاد جی خود تو موحد تھے اور خدا کا انکار کرنے والے اپنے بادشاہ باپ سے جنگ بھی کی مگر پر ہلاد جی کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے مندر پر بت پرست غالب آ گئے اور پرہلاد جی کا مندر ہندو مذہب کا مرکز بنا ہوا تھا، ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی، پرہلاد مندر کے متولیوں کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جوق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے، آپ نے شروع میں مدرستہ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کی سب سے بڑی پہلی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دیدی، آپ نے تعلیم کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا، جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آج دین سکھانے کے لیے کسی نے بستر اور کسی نے کلاشنکوف اٹھا لی ہے، اس کے مقابلے میں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی (رح) نے کیا طریقہ کار اختیار کیا؟ یہ غور طلب ہے۔

 
شاہ رکن عالم

اسی زمانے دریائے راوی ملتان کے قدیم قلعے کے ساتھ بہتا تھا اور اسے بندرگاہ کی حیثیت حاصل تھی ، کشتیوں کے ذریعے صرف سکھر بھکر ہی نہیں منصورہ ، عراق ، ایران ، مصر کا بل دلی اور دکن تک کی تجارت ہوتی اس طرح ملتان کو دنیا بہت کے بڑے علمی تجارتی اور مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی اور صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت بہاو الدین زکریا ملتانی(رح) نام اور پیغام پہنچا، آپ کے پیغام سے لاکھوں انسان حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور آپ نے لوگوں کے دلوں میں اس طرح گھر بنا لیا کہ آٹھ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لاکھوں انسان ننگے پاؤں اورسر کے بل چل کر آپ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ میرے سامنے ملتان کے معروف آرٹسٹ سئیں ضمیر ہاشمی کے چند فن بارے موجود ہیں ، ان فن پاروں میں قلعہ ملتان کی قدامت کو پنسل ورک ‘‘ کے ذریعے عیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے قلعہ کی فصیل دکھائی گئی ہے ، پرہلاد مندر کا نقشہ انہدام سے پہلے کی شکل میں موجود ہے اور شاہ رکن عالم کا دربار پر انوار بھی جلوہ افروز ہے ۔ قلعہ ملتان کتنا قدیم ہے؟ اس بارے کہا جاتا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ اس سے بھی قدیم ہو ، اس بات پر تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ ملتان اور قلعہ ملتان کا وجود قبل از تاریخ دیو مالائی دور سے بھی پہلے کا ہے ، قابل افسوس امر یہ ہے کہ حملہ آوروں نے ہمیشہ اس قلعے کو نشانہ بنایا اور اسے فتح کرنے کے بعد خوب لوٹ مار ہوتی رہی مگر اسے بحال کرنے کی صورت پیدا نہ ہو سکی ، 1200قبل مسیح دارانے اسے تباہ کیا ،325 قبل مسیح سکندر اعظم نے اس پر چڑھائی کی پھر عرب افغان سکھ اور انگریز حملہ آوروں قدیم قلعہ ملتان کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، اب فرزندان ملتان اور سرائیکی وسیب کے تمام باسیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی سابقہ کوتاہیوں پر غور کریں اور اپنے وسیب کے ساتھ ہونیوالی پانچ ہزار سالہ زیادتیوں کی تلافی کریں اور اپنی عظمت رفتہ کو پہنچائیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ملتان ایک شہر ہی نہیں ایک تہذیب اور ایک سلطنت کا نام بھی ہے۔372ہجری کتاب ’’حدود العالم بن المشرق الی المغرب‘’ میں ملتان کی حدود بارے لکھا ہے کہ قنوج کے راجا اور امیر ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی تھیں’’ سیر المتاخرین‘‘ میں اقلیم ملتان کی حدود اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ ملتان اول دوم و سوم اقالیم سے زیادہ فراخ ہے کیونکہ ٹھٹھہ اس صوبہ پر زیادہ ہوا ہے فیروز پور سے سیوستان تک چار سو تیس کوس لمبا اور چتوڑ سے جیسلمیر تک ایک سو آٹھ کوس چوڑا ہے دوسری طرف طول کیچ اور مکران تک چھ سو ساٹھ کوس ہے اس کے خاور ﴿مشرق﴾ رویہ سرکار سرہند سے ملا ہوا ہے شمالی دریائے شور میں اور جنوبی صوبہ اجمیر میں ہے اور باختر﴿مغرب﴾ میں کیچ اور مکران ہے ۔ ابوالفضل نے اپنی مشہور عالم کتاب آئین اکبری میں ملتان کی حدود یہ بیان کی ہیں ، صوبہ ملتان کے ساتھ ٹھٹھہ کے الحاق سے پہلے یہ صوبہ فیروز پور سے سیوستان تک 624کروہ تھا چوڑائی میں کھت پور سے جیسلمیر تک621 کروہ تھا ٹھٹھہ کے الحاق کے بعد یہ صوبہ کیچ اور مکران تک وسیع ہو گیا ، اس کا یہ فاصلہ 066 کروہ تھا ، مشرق میں اس کی سرحدیں سرہند سرکار سے شمالی میں پشاور سے جنوب میں اجمیر کے صوبے اور مغرب میں کیچ مکران سے ملتی تھیں ، کیچ اور مکران پہلے صوبہ سندھ میں شامل تھے ملتان کے صوبے میں تین سرکاریں ﴿ملتان خاص دیپال پور اور بھکر﴾ تھیں اور کل اٹھاسی پراگنے ﴿ضلع﴾تھے۔ ملتان کی وسعت اور عظمت پر تاریخ آج بھی رشک کرتی ہے ، ملتان کے قدامت کے ہم پلہ دنیا میں شاید ہی کوئی شہر ہو ، پاکستان میں جن شہروں کو مصنوعی طریقے سے ملتان سے کئی گنا بڑے شہر بنایا گیا ہے، آج سے چند سو سال پہلے یہ ملتان کی مضافاتی بستیاں تھیں۔ گرد کا مطلب ہے کہ یہاں آندھیاں بہت آتی ہیں ۔ گرما کا مطلب ہے کہ گرمی بہت ہوتی ہے ، گدا [6] کا مطلب ہے کہ یہاں اللہ والے بہت لوگ ہیں اور گورستان کا مطلب ہے کہ یہاں قبرستان بہت ہیں۔ گرمی کے حوالے سے ’’گرمے‘‘ کی بات کوچھوڑ کر محققین کو اس بات پر غور کرنا چاہئیے کہ دنیا کی امیر کبیر شہر ، دنیا کی بہت بڑی تہذیب ، دوسرا سب سے پرانا قدیم شہر اور دنیا کی بڑی سلطنت کو گورستان میں کس نے تبدیل کیا ؟ ایک وقت تھا جب یہ سلطنت سمندر تک پھیلی ہوئی تھی اور عروس البلد لاہور اس کا ایک مضافاتی علاقہ ہوتا تھا۔ ساہیوال، پاکپتن، اوکاڑہ، میاں چنوں، خانیوال، لودھراں، مظفرگڑھ اور بھکر تمام اس کے علاقے تھے۔ مگر یہ تاریخی شہر رفتہ رفتہ تقسیم در تقسیم ہوتا گیا۔تاریخی سلطنت (صوبہ ملتان) اور آج تین تحصیلوں تک محدود ہو گیا ہے۔

مشہوراولیاءکرام کے مزارات

ترمیم

اس شہر کو اولیاء کرام کا شہر کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کافی تعداد میں اولیاء اور صوفیا کے مزارات ہیں۔ مشہور مزارات میں حضور سیدنا یوسف شاہ گردیزی ؓ کا مزار شریف سرِ فہرست ہے۔ آپ کے بارے میں مشہور عالمِ اہلسنت حضرت عبد الحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب اخبار الاخیار میں گواہی دی ہے کہ آپ وصال کے بعد بھی قبر شریف سے ہاتھ باہر نکال کر بیعت لیتے تھے اور ابھی تک وہ نشان باقی ہے جہاں سے دستِ مبارک قبر شریف سے باہر آتا تھا۔

دیگر مزارات:

  1. حضرت شاہ شمس تبریز(رض) ،
  2. حضرت بہاؤالحق (رض)،
  3. بی بی نیک دامن (رض)،
  4. حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی(رض) ،
  5. حضرت شاہ رکن عالم(رض) ،
  6. حضرت منشى غلام حسن شہيد ملتانى (رض)
  7. حضرت موسیٰ پاک شہید (رض)،
  8. حضرت سید احمد سعید کاظمی(رض) ،
  9. حضرت حافظ محمد جمال (رض) ،
  10. حضرت بابا پیراں غائب(رض)

اور بہت سے اولیاء کرام کے مزارات یہاں پر ہیں۔ مضافات میں حضرت مخدوم عبد الرشید حقانی (رض) شاہ صاحب (وہاڑی روڈ)، حضرت پیر سید سخی سلطان علی اکبر (رض) کا مزار بھی موجود ہے جو سورج میانی روڈ پر واقع ہے۔

ملتان کے قدیم دروازے

ترمیم

ملتان کے قدیم دروازوں کے نام یہ ہیں۔

پاک گیٹ

ترمیم

اس کا نام پاک گیٹ اس وجہ سے ہے کہ اس سے 300 فٹ اندر کی طرف ایک بزرگ شيخ سيد ابوالحساب موسى پاک شہيد کا مزار ہے، جو سید حامد بخش گیلانی کے بیٹے تھے۔

دیگر دروازے

ترمیم
1 2 3 4 5 6
حرم دروازہ پاک دروازہ بوہڑ دروازہ دہلی دروازہ دولت دروازہ لوہاری دروزہ

مشہورمقامات

ترمیم
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41
حیدر پورہ| گھنٹہ گھر عزیز ہوٹل قدیر آباد سورج میانی قاسم بیلہ،لنگڑیال شیر شاہ پیراں غائب سمیجہ آباد شاہ رکن عالم کالونی نیو ملتان ملتان کینٹ ڈیرہ اڈا ممتازآباد،ملتان گلگشت کالونی شمس آباد كالونى واپڈا ٹاون کھاد فیکٹری نشتر ہسپتال سول ہسپتال نواب پور مخدوم رشید بستی ملوک بستی خداداد مظفرآباد قلعہ کہنہ قاسم باغ دولت گیٹ سوئی گیس کالونی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی مزار بی بی پاک دامان جانگلہ بستی دہلی گیٹ بھٹہ کالونی ولایت آباد کمہاراں والا چوک بی سی جی چوک ایم ڈی اے چوک بہاولپور چوک ہیڈ نو بہار وہاڑی چوک رحمان کالونی رنگیل پور بستی
 
ملتان کا بین الاقوامی ہوائی اڈا

آموں کا گھر

ترمیم

ملتان میں آموں کی پیداوار

ترمیم
1 2 3 4 5 6 7 8 9
انور ریٹول چونسہ دوسہری کا لا چونسہ دیسی فجری مالدہ لنگڑہ سندھڑی

شجاع آباد کی پیداوار

ترمیم
  • انور ریٹول
  • چونسہ
  • دوسہری
  • دیسی
  • لنگڑہ

مشہورسوغات

ترمیم
  • حافظ کا ملتانی سوہن حلوہ
  • حافظ عبد الودود کا سوہن حلوہ
  • ریواڑی کی مٹھائی
  • دلمیر کے پیڑے
  • حرم گیٹ کی کھیر
  • لال کرتی کینٹ کا دودھ
  • لال کرتی کینٹ کی چانپ
  • بالی چائے والا
  • نواب ہوٹل کا نمکین
  • خونی برج کی مچھلی
  • دال مونگ
  • ڈولی روٹی
  • گولی والی بوتل
  • کیپیلوز (cappellos) توے والی آئس کریم
  • رشید آباد کا دیسی ناشتا

مشاہیر

ترمیم
  • رفعت ناہید
  • نجم شیراز
  • مراد منور لنگاہ
  • سیاست

    ترمیم

    قومی اسمبلی پاکستان

    ترمیم
     
    مجلس شوریٰ پاکستان

    ملتان سے قومی اسمبلی کی 6 نشستیں ہیں جس کی فہرست مندرجہ ذیل ہے۔ [7]

    اخبار، رسائل و میڈیا چینل

    ترمیم
    • روزنامہ آغاز سفر، ملتان، چیف ایڈیٹر محمد ذو الفقار
    • روزنامہ جھوک ملتان، چیف ایڈیٹر، ظہور احمد دھریجہ
    • ماہنامہ لولاک، ملتان، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت
    • روزنامہ جنوبی پنجاب ملتان
    • قومی اردو اخبارات روزنامہ جنگ، نوائے وقت، خبریں، ایکسپریس، پاکستان، انگریزی اخبارات دی نیوز، ڈان، دی نیشن
    • روزنامہ عوامی درشن (ایڈیٹر مظہر عباس ساجد)
    • روزنامہ اوصاف (ایڈیٹر: محسن بلال خان)
    • روزنامہ آغاز سفر (ایڈیٹر ذو الفقار)
    • روزنامہ سفیر پنجاب (چیف ایڈیٹر: سعید اللہ خان درانی/اجرا 2018ء)
    • ماہنامہ کرن کرن روشنی ملتان(جنوبی پنجاب سے پہلا ادب اطفال رسالہ/چیف ایڈیٹر:علی عمران ممتاز/اجرا،اگست2002)
    • ماہنامہ الصدیق ملتان
    • پاکستان ٹیلی ویژن ملتان مرکز
    • ریڈیو پاکستان ملتان، دیگر ایف ایم ریڈیو
    • روہی ٹی وی، وسیب ٹی وی

    شہر نتائج

    ترمیم
    درجہ شہر آبادی (1998 مردم شماری) آبادی (2017 مردم شماری) اضافہ صوبہ
    1 کراچی 9,856,318 16,051,521 [8] 62.86% سندھ
    2 لاہور 5,143,495 11,126,285  116.32% پنجاب، پاکستان
    3 فیصل آباد 2,008,861 3,203,846 59.49% پنجاب، پاکستان
    4 راولپنڈی 1,409,768 2,098,231 48.84% پنجاب، پاکستان
    5 گوجرانوالہ 1,132,509 2,027,001 78.98% پنجاب، پاکستان
    6 پشاور 982,816 1,970,042 100.45% خیبر پختونخوا
    7 ملتان 1,197,384 1,871,843  56.33% پنجاب، پاکستان
    8 حیدرآباد، سندھ 1,166,894 1,732,693 48.49% سندھ
    9 اسلام آباد 529,180 1,014,825 91.77% اسلام آباد وفاقی دارالحکومت علاقہ
    10 کوئٹہ 565,137 1,001,205 77.16% بلوچستان

    حوالہ جات

    ترمیم
    1. "PROVISIONAL SUMMARY RESULTS OF 6TH POPULATION AND HOUSING CENSUS-2017"۔ pbs.gov.pk۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 نومبر 2017 
    2. "Archived copy"۔ 14 اپریل 2006 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2009 
    3. Area reference آرکائیو شدہ 14 اپریل 2006 بذریعہ وے بیک مشین، Density reference آرکائیو شدہ 26 ستمبر 2009 بذریعہ وے بیک مشین statpak.gov.pk
    4. استھان سنسکرت میں آباد کو کہتے ہیں
    5. مرقع مولتان از سید اولاد علی گیلانی
    6. گدا "گدا کا مطلب ہے مانگنے والا، مگر یہاں مانگنے والے اللہ سے مانگتا ہے انسانوں سے نہیں"
    7. https://na.gov.pk/en/mna_list.php?list=punjab
    8. "آرکائیو کاپی" (PDF)۔ 16 جون 2020 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جنوری 2022