ادارۂ ثقافت اسلامیہ
ادارۂ ثقافت اسلامیہ پاکستان میں واقع اسلامی علوم کاخود مختار غیر سرکاری اشاعتی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ لاہور میں 1950ء میں اس غرض سے قائم کیا گیا کہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلوؤں کا علمی و تحقیقی مطالعہ کیا جائے۔ اس ادارے کے پہلے ناظم اعلیٰ خلیفہ عبدالحکیم تھے۔[1] ڈاکٹر صاحب مغربی و یورپی فلسفے کے ساتھ ساتھ اسلامی فلسفے پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ادارے کے ارکان کے انتخاب میں اس وقت اس امر کا خیال رکھا گیا کہ وہ قدیم و جدید علوم پر قدرت کاملہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا محمد جعفر شاہ پھلواری، مولان مظہر الدین صدیقی، ڈاکٹر محمد رفیع الدین، جناب بشیر احمد ڈار، پروفیسر محمد سرور، رئیس احمد جعفری اور شاہد حسین رزاقی جیسے جید علما کا انتخاب کیا گیا۔ خلیفہ عبدالحکیم کے بعد محمد شریف کو نظامت کے فرائض سونپے گئے اس کے بعد شیخ محمد اکرام نے اس ادارے کی صدارت سنبالی۔ 1973 میں پروفیسر محمد سعید اس ادارے کے ناظم مقرر ہوئے۔ جب کہ کچھ عرصہ ڈاکٹر وحید قریشی بھی اس ادارے کے ناظم رہے۔ اس ادارے کی جانب سے سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن کا موضوع اسلامی و پاکستانی ثقافت و تہذیب اور تاریخ بر عظیم پاک و ہند ہے۔[2]
محل وقوع
ترمیمصدیوں سے علم و ثقافت کا مرکز رہنے والے لاہور کی مرکزی شاہراہ قائد اعظم ، جو دی مال اور مال روڈ بھی کہلاتی ہے۔ پر کلب روڈ کے چوک میں جی او آر اور ہوٹل پرل کانٹی نینٹل کے درمیان نرسنگھ داس گارڈن واقع ہے اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ ۔ بزم اقبال۔مجلس ترقی ادب ۔ پنجابی ادبی بورڈ بھی یہی واقع ہے
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کا دفتر اسی چمن زار میں کولونیل عہد کی ایک پُرشکوہ عمارت میں واقع ہے۔
قیام
ترمیمادارہ ثقافتِ اسلامیہ کا قیام پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد 1950ء میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کا سب سے بڑا مقصد مسلم علوم و فنون کو جدید ذہن کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنا تھا تاکہ وطن عزیز کی نئی نسلوں کے شعور و فہم کو نظریاتی آہنگ دیا جا سکے۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک یہ ادارہ مسلمانوں کے علوم و افکار اور تہذیب و تمدن کے تحقیقی مطالعے کے حوالے سے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہا ہے۔
ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے قیام میں سید واجد علی شاہ اور ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے نمایاں دلچسپی لی تھی۔ اُن کی دلچسپی اور کاوشوں کے پیش نظر سید واجد علی کو ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا تاحیات چیئرمین اور ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کو ادارہ کا اولین ڈائریکٹر منتخب کیا گیا۔ ان واجب الاحترام بزرگوں نے تحقیق و تصنیف اور اشاعت کی ایک گراں قدر روایت کی داغ بیل ڈالی۔ شاہ صاحب 2009ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے اور سید شاہد علی اُن کے جانشین منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کا انتقال 1959ء میں ہوا تھا اور اس نامور فلسفی کی جگہ پروفیسر ایم ایم شریف نے لی، وہ قبل ازیں علی گڑھ یونیورسٹی میں فلسفے کے پروفیسر اور آل انڈیا فلاسفیکل کانگریس کے صدر رہ چکے تھے۔
روز اول سے ملک کے نامور اہل علم اس ادارے سے وابستہ رہے ہیں۔ اُن میں اس ادارے کے کئی ڈائریکٹر مثلاً ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، پروفیسر ایم ایم شریف، جناب شیخ محمد اکرام، پروفیسر سعید شیخ، جناب سراج منیر، ڈاکٹر رشید احمد جالندھری کے علاوہ مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم، مولانا جعفر شاہ پھلواروی مرحوم، جناب رئیس احمد جعفری مرحوم، پروفیسر حمید احمد خان مرحوم، جناب شاہد حسین رزاقی، مولانا محمد اسحاق مرحوم اور پروفیسر مظہر الدین صدیقی شامل ہیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ [3]
فعالیت
ترمیماشاعت کتب ادارہ ثقافت اسلامیہ کی سب سے نمایاں فعالیت ہے۔ یہ ادارہ اب تک تین سو کے لگ بھگ کتابیں شائع کرچکا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد اردو زبان میں لکھی جانے والی کتابوں کی ہے تاہم 60 سے زیادہ کتابیں انگریزی زبان میں ہیں جو نہ صرف پاکستانی قارئین بلکہ بین الاقوامی قارئین کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے تحریر کی گئی ہیں اور اُن تک پہنچی بھی ہیں۔ ادارہ کی مطبوعات میں علمی و تحقیقی کام، تراجم اور تالیفات شامل ہیں۔ عہد جدید سے تعلق رکھنے والے مسائل پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ ان مطبوعات کی اہمیت کا اندرون ملک اور بین الاقوامی سطح پر بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ ملک کے چیدہ سکالرز کے علاوہ ادارے کو بین الاقوامی سطح کے مفکرین کی نگارشات شائع کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ یوں تحقیق و اشاعت کی دوتہائی صدی پر پھیلی ہوئی اس درخشندہ روایت ہے۔ موضوعات کے وسیع دائرے میں ایسی مطبوعات کا ایک قابل قدر ذخیرہ فراہم کر دیا ہے جس کی ذہنی، علمی اور ثقافتی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
مطبوعات
ترمیمگذشتہ 67 برسوں میں ادارے کی مطبوعات نے مسلم تہذیبی شعور کی تربیت اور فروغ میں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔ ادارے کی اشاعتی سرگرمیوں کا دائرہ قرآن و حدیث سے فقہ، تفسیر، تعلیم و تدریس، تاریخ و سوانح، تہذیب و تمدن، اخلاق و تصوف اور ادبیات تک پھیلا ہوا ہے۔ جدید مسلم ذہن کی تشکیل میں یہ مطبوعات اہم حصہ لے رہی ہیں۔ [4]
مجلہ
ترمیماشاعت کتب کے علاوہ ادارہ المعارف کے نام سے ایک علمی اور تحقیقی مجلہ بھی شائع کرتا ہے۔ اس مجلہ کا آغاز جنوری 1955ء سے ماہنامہ کے طور پر ہوا تھا اور 1967ء کے آخری ماہ تک وہ باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ فروری 1968ء میں اس کانام بدل کر ثقافت کی بجائے المعارف رکھ دیا گیا۔ اس نام سے یہ ماہوار جریدہ 1984ء تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ دسمبر 1984ء میں بعض انتظامی تبدیلیوں کے باعث المعارف کے ماہانہ کی بجائے خصوصی شمارے شائع ہوتے رہے۔ اگلے چودہ برسوں تک اس کے آٹھ خصوصی شمارے منظر عام پر آئے۔ بعد ازاں بعض انتظامی مسائل اور نہایت قلیل مالی وسائل کی وجہ سے اس جریدے کی اشاعت بے قاعدہ رہی۔ بہرحال 2009ء سے المعارف ماہوار کی بجائے ششماہی بنیاد پر باقاعدگی سے قارئین تک پہنچ رہا ہے۔ مذکورہ رکاوٹوں کے باوجود المعارف کا علمی معیار برقرار رہا ہے اور یہ ہمارے ملک کے وقیع علمی جراید میں شمار ہوتا ہے۔[5]
ادارے کے ڈائریکٹر قاضی جاوید المعارف کے ایڈیٹر ہیں۔ اس کی مجلس مشاورت میں جناب افضل حق قرشی، —— اور قاضی جاوید شامل ہیں۔ شمارہ کی قیمت 50 روپے ہے اور سالانہ چندہ 100 روپے ہے۔
اادارہ ثقافتِ اسلامیہ نے حال ہی میں جریدہ ثقافت؍المعارف کے 60 سالہ اشاریہ شائع کیا ہے۔ یہ اشاریہ موضوع وار ہے اور مصنف وار بھی۔ اس کے مرتب محمد شاہد حنیف ہیں جو اس سیے پہلے کئی اور علمی و ادبی رسائل کے اشاریے مرتب کرچکے ہیں۔
لائبریری
ترمیملاہور کے عین وسط میں ہوتے ہوئے بھی ادارہ کی مجموعی فضا شہر کے عمومی مزاج سے مختلف ہے۔ وسیع کمپاؤنڈ، درختوں اور پودوں کے درمیان علمی سکون اور وقار نے ایک ایسا ماحول پیدا کررکھا ہے جو علمی و تحقیقی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔تو گرداب اس خاموشی اور سکون بخش ماحول میں ادارہ کی لائبریری واقع ہے۔ یہ جنرل لائبریری نہیں ہے بلکہ اس میں اُن موضوعات پر کتب شامل ہیں جن سے ادارہ کو زیادہ دلچسپی ہے۔ چنانچہ زیادہ تر کتب مذہبیات، فلسفہ، تاریخ، ادبیات اور تہذیب و ثقافت کے موضوعات پر ہیں۔ یہ کتابیں گذشتہ دو تہائی صدی کے دوران ادارہ کے نامور ناظمین اور قومی مستقبل کو پیش نظر رکھنے والے ماہرین نے منتخب کی ہیں۔لائبریری میں کتب کی مجموعی تعداد 25 ہزار سے زیادہ ہے۔ زیادہ تر کتابیں انگریزی زبان میں ہیں، لیکن اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں بھی کتابیں موجود ہیں۔
بلاشبہ یہ ہمارے خطے میں مذکورہ بالا موضوعات پر بہترین کتب کا ذخیرہ ہے اور قابلِ ذکر قومی و ثقافتی اثاثہ ہے۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی سے ادارہ ثقافت اسلامیہ نے اپنے بانی ڈائریکٹر ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم کی یادمیں سالانہ یادگاری خطبہ کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ یہ خطبہ خلیفہ صاحب کی زندگی، شخصیت اور ان کے نظریات کے علاوہ اُن کی دلچسپی کے کسی موضوع پر دیا جاتا ہے۔ ملک کی کئی ممتاز علمی شخصیات یہ یادگاری خطبات دے چکی ہیں۔ ان میں، دوسروں کے علاوہ، ڈاکٹر منظور احمد، احمد ندیم قاسمی، محمد خالد مسعود، ڈاکٹر حسین محمد جعفری، پروفیسر فتح محمد ملک، انتظار حسین ، آئی اے رحمان اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا شامل ہیں۔
ادارہ نے ان خطبات کو خطبات بیاد خلیفہ عبد الحکیم کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع بھی کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی ادارہ وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر سیمینارز اور لیکچرز کا اہتمام کرتا رہتا ہے۔
اہل قلم
ترمیمابتدا ہی سے ادارے کو وطن عزیز کے نامور سکالرز اور اہل قلم کا تعاون حاصل رہا ہے۔ ادارے نے جن مصنفین کی کتابیں شائع کی ہے ان میں ایسے صاحبان شامل ہیں جو علم و دانش کے حوالے سے پورے ملک میں جانے پہچانے ہیں۔ ان میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں :
(1) ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم
(2) پروفیسر ایم ایم شریف
(3) مولانا محمد حنیف ندوی
(4) مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی
(5) شیخ محمد اکرام
(6) ڈاکٹر منظور احمد
(7) پروفیسر محمد سرور
(8) مولانا محمد اسحاق بھٹی
(9) پروفیسر حمید احمد خان
(10) ڈاکٹر ایوب قادری
(11) ڈاکٹر محمد رفیع
(12) بشیر احمد ڈار
(13) ڈاکٹر محمد خالد مسعود
(14) ڈاکٹر برہان احمد فاروقی
(15) سید ظفر الحسن
(16) ڈاکٹر مہر عبدالحق
(17) رئیس احمد جعفری
(18) خواجہ عباد اللہ اختر
(19) مولانا محمد مظہر الدین
(20) ڈاکٹر اظہر علی رضوی
(21) عبیداللہ قدسی
(22) جسٹس ایس اے رحمان
بورڈ آف ڈائریکٹر
ترمیمادارہ ثقافتِ اسلامیہ ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جس کے پالیسی امور اور اُس کی سرگرمیوں کی نگرانی ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کرتا ہے۔ 1950ء میں سید واجد علی شاہ مرحوم اس بورڈ کے تا حیات صدر نشین منتخب ہوئے تھے۔ ان کی وفات کے بعد سید شاہد علی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین ہیں۔
اس وقت مندرجہ ذیل صاحبان بورڈ کے رکن ہیں :
(1) سید شاہد علی (چیئرمین)
(2) ڈاکٹر خالد حمید شیخ (پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر)
(3) ڈاکٹر خالد آفتاب (گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور کے سابق وائس چانسلر)
(4) ڈاکٹر رفیعہ حسن (پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اطلاقی نفسیات کی سابق چیئر پرسن)
(5) نیر علی دادا (معروف ماہر تعمیرات اور دانش ور)
(6) ڈاکٹر خورشید رضوی (عربی زبان و ادب کے معروف سکالر)
(7) ڈاکٹر عبدالخالق (پاکستان فلاسفیکل کانگریس کے سابق سربراہ)
(8) شاہنواز زیدی (شعبہ فنون لطیفہ ، پنجاب یونیورسٹی کے سابق سربراہ)
(9) سیکرٹری اطلاعات و ثقافت، حکومت پنجاب (رکن بلحاظ عہدہ)
(10) چیئرمین، اکادمی ادبیات پاکستان (رکن بلحاظ عہدہ)
(11) جناب قاضی جاوید
ان کے علاوہ مندرجہ ذیل صاحبان ماضی میں بورڈ آف ڈائریکٹڑز کے رکن رہ چکے ہیں :
جناب انتظار حسین (مرحوم)
ڈاکٹر محمد افضل (مرحوم)
جسٹس سردار محمد اقبال (مرحوم)
لیفٹینٹ جنرل غلام صفدر (مرحوم)
جناب ملک محمد حنیف (مرحوم)
خان بہادر عبدالعزیز (مرحوم)
لیفٹینٹ کرنل عبدالرشید (مرحوم)
خواجہ بشیر بخش (مرحوم)
مسیح الدین صدیقی (مرحوم)
جسٹس ایس اے رحمان (مرحوم)
پروفیسر حمید اللہ خان (مرحوم)
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "Dr. Khalifa Abdul Hakim"
- ↑ "Institute of Islamic Culture, Lahore | UIA Yearbook Profile | Union of International Associations"۔ uia.org
- ↑ "ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور"۔ kitabosunnat.com
- ↑ "مطبوعات ادارہ ثقافت اسلامیہ"۔ 東京外国語大学附属図書館OPAC
- ↑ "Institute of Islamic Culture desperate for funding"۔ The Express Tribune۔ 24 اکتوبر، 2011