اسامہ بن زید

ابتدائی مسلمان اور اسلامی پیغمبر محمد کے صحابہ


صحابی کنیت ابو محمد اور لقب الحب بن الحب (محبوب بن محبوب) تھا۔ ہجرت سے سات سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد زید بن حارثہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام اور منہ بولے بیٹے تھے۔ ابتدائی جنگوں میں کم عمری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے۔ بعد میں بہت سے غزوات میں حصہ لیا۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک ہی اونٹ پر سوار تھے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لڑائیوں میں بھی غیر جانبدار رہے۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد حکومت میں سن 54ھ میں وفات پائی ۔

اسامہ بن زید
(عربی میں: أسامة بن زيد بن حارثة ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 615ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 678ء (62–63 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ فاطمہ بنت قیس   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد زید بن حارثہ [2]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ام ایمن   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فوجی افسر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سریہ اسامہ بن زید ،  غزوہ حنین   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سپہ سالار

ترمیم

سریہ اسامہ بن زید حضور اکرم کی زندگی کا آخری سریہ ہے بروز پیر 26 صفر 11ھ کو روانہ کیا گیا جو آپ نے اپنی وفات اقدس سے صرف چند دن پہلے رومیوں سے جنگ کے لیے اپنی علالت ہی کے دوران اپنے دست مبارک سے جنگ کا جھنڈا باندھا اور اسامہ بن زید کو سپہ سالار بنایا۔

نام و نسب

ترمیم

اسامہ نام ، ابو محمد کنیت ،حب رسول اللہ ﷺ یعنی محبوب ِرسول لقب، والد کا نام زید تھا، اسامہ بن زید بن حارثہ بن شرجیل بن کعب بن عبدالعزی بن زید امرؤالقیس بن عامر بن نعمان بن عامر بن عبدود بن عوف بن کنانہ بن بکر بن عوف بن عذرہ بن زید اللات بن رفیدہ بن ثور بن کلب بن وبرہ کلبی۔

پیدائش ،اسلام اور ہجرت

ترمیم

بعثت میں مکہ میں پیدا ہوئے،ان کے والد زید آنحضرتﷺ کے محبوب غلام اور منہ بولے بیٹے تھے اوران کی ماں برکہ آنحضرت کی کھلائی تھیں، اس لیے ان کو ماں اور باپ دونوں کی طرف سے رسول اللہ کی محبوبیت کا شرف ورثہ میں ملا تھا، انھوں نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کے گہوارہ میں پرورش پائی تھی، اس لیے ان کی زندگی کا کوئی حصہ کفر و شرک کی آلودگیوں سے ملوث نہ ہوا، ہجرت کا شرف آنحضرت کے ساتھ حاصل کیا۔ [3]

غزوات

ترمیم

ہجرت عظمیٰ کے بعد مغازی اور سرایا کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، لیکن ابتدائی لڑائیوں میں کم سنی کے باعث شریک نہ ہو سکے ،سریہ حرقہ سے میدان جنگ میں آنے کی ابتدا معلوم ہوتی، (گو اس کی تصریح نہیں ملتی لیکن قیاس یہی چاہتا ہے )صحیح بخاری اور حدیث کی دوسری کتابوں میں اس سریہ کا نام سریہ حرکات لکھا ہے ،اہل سیر کہتے ہیں کہ یہ وہی سریہ ہے جس کے امیر غالب لیثی تھے اور جو میں واقع ہوا تھا ؛لیکن حاکم نے اکلیل میں لکھا ہے کہ یہ دوسرا سریہ تھا، جو میں ہوا، ان دونوں سریوں کے الگ الگ ہونے کی اس امر سے بھی شہادت ملتی ہے کہ سریہ غالب کے امیر حضرت غالب ؓ تھے،اور اس سریہ حرقہ میں امارت وقیادت خود حضرت اسامہ ؓ کے ہاتھ میں معلوم ہوتی ہے ،جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے اشارۃ ظاہر ہوتا ہے اور حاکم نے اکلیل میں اس کی تصریح کی ہے،یہ سریہ یا کا واقعہ ہے،اس وقت ان کی عمر زیادہ سے زیادہ 15 ، 14 سال کی تھی، مگر ان کی فطری استعداد و صلاحیت نے آنحضرت سے اس سریہ کی سرداری کا شرف حاصل کیا، مگر نا آزمودہ کار تھے، اس لیے بعض فاش غلطیاں ہو گئیں، جن کو وہ خود اپنی زبان سے بیان کرتے تھے کہ آنحضرت نے ہم لوگوں کو حرقہ کی طرف بھیجا تھا،صبح کو دشمنوں سے مقابلہ ہوا، دشمن ہزیمت کھا کر بھاگ گئے، میں نے اور ایک انصاری نے ایک شخص کا تعاقب کیا جب وہ زد میں آگیا تو لاالہ الا اللہ پکار اٹھا، اس کے اس اعلان پر انصاری نے ہاتھ روک لیا، مگر میں نے نیزوں سے کام تمام کر دیا، واپسی کے بعد آنحضرت کو واقعہ معلوم ہوا تو فرمایا کہ اسامہ تم نے ایک شخص کو کلمہ طیبہ پڑہنے کے بعد بھی قتل کر دیا، میں نے عرض کیا، اس نے اپنے بچاؤ کے لیے ایسا کیا تھا،آپ نے یہ عذر نا قابل قبول سمجھا اور بار بار اس جملہ کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ مجھ کو اتنی ندامت ہوئی کہ دل میں کہنے لگا کاش آج کے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا۔ [4]

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اے اسامہ، !تم نے اس کا دل چیز کر کیوں نہ دیکھا یعنی ظاہر اسلام کے لیے زبان کا اقرار کافی ہے، اس سریہ کے متعلق ایک یمانی کی روایت ہے کہ یہ اسامہ کے میدانِ جنگ میں قدم رکھنے کا پہلا موقع تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اس کے قبل کسی غزوہ میں نہیں شریک ہوئے اور اسی سے ان کی جنگ آزمائی کی ابتدا ہوئی۔

فتح مکہ

ترمیم

فتح مکہ اسلام کی فتح و شکست کاآخری معرکہ تھا، اسامہ اس میں شریک تھے اور فتح مکہ کے بعد بیت اللہ میں اس شان سے داخل ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے ساتھ سوار تھے اور حضرت بلالؓ و عثمانؓ بن طلحہ جلو میں تھے، خانہ کعبہ کھلنے کے بعد چاروں آدمی ساتھ داخل ہوئے ان کے داخلہ کے بعد دروازہ بند کر لیا گیا تھا۔ [5]

امارت سریہ

ترمیم

آنحضرت ﷺ نے ایک سے زائد سریے اسامہؓ کی سرکردگی میں بھیجے، ان میں سب سے اہم وہ سریہ تھا، جس میں ان کو اجلۂ صحابہ پر شرف امارت عطا ہوا، اس کا واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت کے سفیر حضرت حارث بن عمیرؓ ازدی شاہ بصری کے دربار سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آ رہے تھے کہ مقام موتہ میں شرجیل بن عمرو غسانی نے ان کو شہید کر دیا، آنحضرت نے اس کے انتقام میں حضرت زید بن حارثہ کی زیر قیادت ایک سریہ روانہ کیا، لیکن یہ بھی شہید ہوئے اور ان کے ساتھ اکابر صحابہ میں حضرت جعفر طیارؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے بھی جام شہادت پیا، آنحضرت کو ان بزرگوں کی شہادت کا بڑا قلق ہوا، چنانچہ اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے ان شہدا کے انتقام کے لیے ایک اور سریہ روانہ کیا اور چونکہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کے والد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے، اس لیے اس سریہ کا امیر اسامہؓ کو بنایا ، اس میں ان کی دلد ہی بھی مدِ نظر تھی اور والد کی شہادت کی وجہ سے انتقام کا جو جذبہ ان میں ہو سکتا تھا وہ دوسرے میں ممکن نہ تھا۔ چنانچہ صفر 11ھ میں آنحضرت نے سریہ کی تیاری کا حکم دیا اور اسامہؓ بن زید کو بلا کر اس کے متعلق ضروری ہدایات فرمائیں ، لیکن ابھی یہ سریہ روانہ نہ ہوا تھا کہ آنحضرت کو بیماری کی علامات شروع ہوگئیں، مگر آپ پر حضرت زیدؓ اور جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اتنا اثر تھا کہ اس کی روانگی ملتوی نہ فرمائی اور اسی بیماری کی حالت میں اپنے دست مبارک سے علم مرحمت فرمایا اور سریہ روانہ ہو گیا، پہلی منزل مقام جرف میں کی، اس سریہ میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ ، ابوعبیدہ بن جراح، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید اور قتادہ بن نعمان رضوان اللہ علیہم جیسے کبار صحابہ سب اسامہؓ کی ماتحتی میں تھے، بعض لوگوں کو یہ ناگوار ہوا اور انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لڑکے کو مہاجرین اولین پر امیر بنایا ہے، آپ کو اس کی خبر ہوئی تو اس سے بہت تکلیف پہنچی اور اسی بیماری کی حالت میں سر میں پٹی باندھے ہوئے نکلے اور منبر پر چڑھ کر ایک مختصر تقریر فرمائی کہ اسامہ بن زید کو امیر بنانے میں بعض لوگوں نے جو نکتہ چینیاں کی ہیں، اس کی اطلاع مجھ کو ملی، اسامہ بن زید کی امارت پر یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے، تم لوگ اس سے پہلے اس کے باپ کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہو، خدا کی قسم وہ افسری کا سزاوار تھا اور اس کے بعد اس کا لڑکا افسری کا سزاوار ہے، وہ مجھ کو بہت محبوب تھا، اوریہ بھی ہر حسن ظن کے لائق ہے اس لیے تم لوگ اس کے ساتھ بھلائی سے پیش آیا کرو کہ وہ تمھارے بہتر لوگوں میں ہے، اس تقریر کے بعد آپ کا شانہ اقدس میں تشریف لے گئے۔

اس سریہ کی پہلی منزل گاہ، جرف مدینہ کے قریب ہی تھی، اس لیے جانے والوں کا سلسلہ برابر جاری تھا، لوگ آنحضرت کی خدمت میں آتے تھے اور رخصت ہوکر جاتے تھے، اسامہؓ بن زید آنحضرت کو بیمار چھوڑ کر گئے تھے، اس لیے وہ بھی دیکھنے آجاتے تھے اتوار کے دن آنحضرت کا مرض زیادہ بڑھ گیا، اسامہؓ منزل گاہ سے مزاج پرسی کے لیے آئے اس وقت آپ پر غفلت طاری تھی، اسامہؓ بن زید نے آکر بوسہ دیا، آپ بالکل خاموش تھے، تاہم اسامہؓ کی دعا کے لیے دست مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور اسامہؓ پر رکھتے تھے،اسامہؓ دیکھ کر واپس گئے اوردوسرے دن صبح کو پھر دیکھنے آئے،اس دن افاقہ تھا،آپ نے اسامہ کو روانگی کا حکم دیا، چنانچہ انھوں نے فوج کو کوچ کا حکم دے دیا ؛لیکن قبل اس کے کہ اسامہؓ جرف سے روانہ ہوں، ان کی ماں ام ایمن کا آدمی ملاکہ رسول اللہ کا وقت آخر ہے،فوراً مدینہ چلے آؤ،چنانچہ اسامہؓ، عمرؓ اور ابوعبیدہؓ اسی وقت مدینہ پہنچے، اس وقت آنحضرت اس دنیائے فانی کو چھوڑ رہے تھے، آپ کی وفات کے بعد پوری فوج جرف سے مدینہ آگئی اور یہ مہم اس وقت ملتوی ہو گئی اور اسامہ بن زیدؓ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول ہو گئے اور جسم مبارک کو قبر انور میں اتارنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔

[6] چونکہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری وقت تک برابر اسامہؓ کو روانگی کی تاکید فرماتے رہے تھے، اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے مسندِ خلافت پر قدم رکھتے ہی اسامہ ؓ کو روانگی کا حکم دیا اور بریدہ حصیب علم کو لے کر جرف پہنچ گئے،لیکن اسی درمیان میں ارتداد کا فتنہ اٹھ کھڑا ہوا، لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ فی الحال اس مہم کو روک دیجئے خود حضرت اسامہ بن زید نے عرض کیا کہ آنحضرت نے مجھ کو سکون کی حالت میں بھیجا تھا؛ مگر اب حالات دوسرے ہیں اس لیے فی الحال یہ مہم ملتوی کردیجئے ،لیکن آپ نے جواب دیا کہ خواہ مجھ کو پرندے نوچ کھائیں ،لیکن میں رسول اللہ کے حکم کو پورا کیے بغیر نہیں رہ سکتا، [7] بہر حال آپ اس مہم کو روکنے پر آمادہ نہ ہوئے،اور فوج کو روانگی کا حکم دیا۔ پہلی مرتبہ گو آنحضرت کی فہمائش سے لوگوں نے اسامہ کی امارت منظور کرلی تھی، لیکن دل سے سب ناپسند کرتے تھے، اس لیے دوبارہ جب حضرت ابوبکرؓ نے اسامہؓ کو روانگی کا حکم دیا تو انصار کی جماعت نے آپ کے پاس حضرت عمرؓ کو بھیجا کہ اسامہؓ کی بجائے کسی سن اور معمر شخص کو امارت کا عہدہ دیا جائے، یہ پیام سن کرآپ بہت برہم ہوئے اورفرمایا، ابن خطاب !جس شخص کو رسول اللہ نے امیر بنایا ہے تم مجھ سے اس کے معزول کرنے کی خواہش کرتے ہو !اور بلاکسی قسم کی تبدیلی کے بعینہ وہی فوج روانہ کی اور تھوڑی دور خود پیادہ پارخصت کرنے کے لیے گئے،اسامہؓ نے عرض کیا یا خلیفہ رسول اللہ!آپ سوار ہو کر چلیں ،ورنہ ہم لوگ سواریوں سے اتر پڑیں گے، فرمایا نہ مجھ کو سوار ہونے کی ضرورت ہے، نہ تم کو اترنے کی، میرے پیروں کو اللہ کی راہ میں غبار آلود ہونے دو، [8] غرض حضرت ابوبکرؓ صدیق نے اس شان سے جیش اسامہؓ کو رخصت کیا اور اسامہؓ نے منزل مقصود پر پہنچ کر دشمنوں سے نہایت کامیاب مقابلہ کیا اور اپنے والد بزرگوار کے قاتل کو واصل جہنم کیا اور حضرت ابوبکرؓ صدیق کی خدمت میں فتح کا مژدہ بھیجا، آپ اس فتح سے اس قدر مسرور ہوئے کہ اسامہ ؓ کی واپسی پر مہاجرین وانصار کو لے کر مدینہ سے باہر ان کے استقبال کو نکلے، اسامہؓ نہایت شاندار طریقہ سے مدینہ میں داخل ہوئے، آگے آگے بریدہ بن عصیب پرچم لہرا رہے تھے اور اس کے پیچھے اسامہ ؓ اپنے والد کے سبحہ نامی گھوڑے پر سوار تھے، مدینہ آتے ہی انھوں نے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھی اور نماز پڑھ کر گھر گئے۔ [9]

عہد فاروقی

ترمیم

حضرت اسامہؓ انحضرت کو محبوب تھے، اس لیے آپ کے جانشین بھی ان کا بہت لحاظ رکھتے تھے،حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں ہمیشہ ان کا خیال رکھا؛ چنانچہ جب آپ نے تمام صحابہؓ کے وظائف مقرر کیے تو اپنے صاحبزادہ عبداللہ کا ڈھائی ہزار اور اسامہؓ کا تین ہزار مقرر کیا،عبداللہ نے عرض کیا اس تفریق کا کیا سبب ہے،جب کہ میں تمام غزوات میں اسامہؓ کے دوش بدوش رہا اورآپ ان کے والد زید سے کبھی پیچھے نہ رہے، فرمایہ یہ سچ ہے، لیکن آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو تم سے اور ان کے والد کو تمھارے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ [10]

عہد عثمانی

ترمیم

حضرت عثمانؓ غنی کے عہدِ خلافت میں فتنہ وفساد کے خیال سے ملکی معاملات میں علانیہ کوئی حصہ نہیں لیا، لیکن خیر خواہ مسلمان کی حیثیت سے قیام نظم اورانسداد مفاسد پرحضرت عثمانؓ سے خفیہ طور پر گفتگو کرتے تھے،لوگوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے فتنوں کے فرو کرنے کے متعلق گفتگو کیجئے جواب دیا، تم لوگ علانیہ مجھ کو درمیان میں ڈالنا چاہتے ہو اور میں ان سے خفیہ گفتگو کرتا ہوں کہ مبادا میری علانیہ گفتگو سے نیا فتنہ نہ اُٹھ کھڑا ہو اور اس کی ساری ذمہ داری مجھ پر عائد ہو جائے۔ [11]

عہد معاویہؓ و علیؓ

ترمیم

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب زیادہ شورش بڑھی تو اسامہ بالکل علاحدہ ہو گئے، [12] حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کی معرکہ آرائیوں میں بالکل کنارہ کش رہے اور حضرت علیؓ کے پاس کہلا بھیجا کہ اگر آپ شیر کی داڑھ میں گھستے تو میں بخوشی گھس جاتا، لیکن اس معاملہ میں حصہ لینا پسند نہیں کرتا، [13] گووہ مسلمانوں کی خونریزی کے خوف سے ان لڑائیوں میں غیر جانبدار تھے،تاہم حضرت علیؓ کو حق پر جانتے تھے اور آخر دم تک اس غیر جانبداری پر کف افسوس ملتے تھے ،ابراہیم کی روایت ہے کہ اسامہؓ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو امداد نہ کرنے پر اس درجہ نادم رہے کہ آخر میں توبہ کی۔ [14]

وفات

ترمیم

امیر معاویہؓ کے آخر زمانہ امارت 54ھ میں مدینہ میں وفات پائی، [15] اس وقت آپ کی ساٹھ سال کی عمر تھی۔

اہل و عیال

ترمیم

اسامہؓ بن زید نے متعدد شادیاں کیں اور کثرت سے اولادیں ہوئیں، پہلی شادی 14 سال کی عمر میں خود آنحضرت نے زینب بنت حنظلہ کے ساتھ کردی تھی، مگر اسامہؓ نے ان کو طلاق دے دی، دوسری شادی نعیم بن عبد اللہ الخام نے آنحضرت کے ایما سے اپنے یہاں کردی، ان کے بطن سے ابراہیم بن اسامہؓ تھے، اس کے علاوہ خود اسامہؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں، ان سے حسب ذیل اولادیں ہوئیں:

نام ازواج

ترمیم

ہند بنت فاکہہ ، درہ بنت عدی ، فاطمہ بنت قیس ، ام حکم بنت عتبہ بنت ابی ہمدان سہمی ، برزہ بنت ربعی۔

نام اولاد

ترمیم

محمد ، ہندہ ، جبیر ، زید، عائشہ ، حسن ، حسین

ذریعہ ٔمعاش

ترمیم

دربار خلافت سے 3 ہزار وظیفہ ملتا تھا، اس کے علاوہ وادی القری میں کچھ جائداد تھی، جس کے انتظام کے لیے اکثر جایا کرتے تھے۔ [16]

فضائل اخلاق

ترمیم

بہت سے فضائل بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مشترک ہیں؛ لیکن اکابر صحابہ میں منفرد طور پر بعض مخصوص فضائل ایسے ہیں جو ان کی خصوصیات شمار کیے جاتے ہیں، مثلاً عبداللہ ابن عمرؓ اور ابوذر غفاریؓ کی اکثر صفات میں اشتراک ہے، لیکن عبداللہ بن عمر کا علم و فضل اور ابوذرؓ غفاری کا زہد و تقویٰ، ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتا تھا اور یہی صفات ان کی زندگی کے روشن ابواب کہے جا سکتے ہیں، اسی طرح اسامہ بن زیدؓ کی بارگاہ نبوت میں پزیرائی اور ان کی محبوبیت ان کا مخصوص طغرائے امتیاز تھا، جو بلا استثنا کسی صحابی کو حاصل نہ تھا۔ آنحضرت ﷺ نے بارہا اپنی زبان مبارک سے اس کا اظہار فرمایا ہے اور اسامہؓ کے ساتھ آپ کا طرز عمل بھی اس کا شاہد ہے، آنحضرت کو اپنے متعلقین میں حضرت حسنینؓ سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی، لیکن اسامہؓ بن زید وہ شخص ہیں جو اس محبت میں بھی شریک و سہیم تھے، آنحضرت ایک زانو پر اسامہؓ کو بٹھاتے اور ایک پر حسنؓ کو اور دونوں کو ملاکر فرماتے کہ خدایا میں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں اس لیے تو بھی رحم فرما [17] دوسری روایت میں ہے کہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اس لیے تو بھی محبت فرما، [18] حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا کہ اسامہؓ مجھ کو سب لوگوں میں محبوب تر ہے۔ [19] ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ اس کا باپ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب تھا، اب یہ سب سے عزیز ہے۔ [20] ایک مرتبہ اسامہؓ چو کھٹ پر گرپڑے اور پیشانی پر زخم آگیا، آنحضرت نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اس کا خون صاف کردو، آپ کو کراہت معلوم ہوئی تو خود اُٹھ کر صاف کرکے لعاب دہن لگایا۔ [21] کبھی کبھی وفور محبت میں مزاح بھی فرماتے تھے،ایک مرتبہ اسامہؓ کا شانہ نبوی میں بیٹھے تھے، حضرت عائشہ بھی تشریف فرما تھیں، آپ اسامہؓ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ اگر یہ بیٹی ہوتی تو میں ان کو خوب زیور پہناتا اور بناؤ سنگار کرتا، تاکہ ان کا چرچا ہوتا اور ہر جگہ سے پیام آتے۔ [22] بارگاہِ نبوت میں اسامہؓ کے رسوخ کا اس سے اندازہ ہوگا کہ جب کوئی ایسی سفارش آنحضرت سے کرنی ہوتی جس میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا جھکتیں تو وہ اسامہؓ کے سپرد کی جاتی، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی لوگوں نے کہا اس کے بارے میں کون شخص آنحضرت سے سفارش پر آمادہ ہوتا ہے، اسامہؓ کے علاوہ کسی کی ہمت نہ پڑی، انھوں نے جاکر آپ سے گفتگو کی؛ لیکن حدود اللہ کا معاملہ تھا، اس لیے آنحضرت نے نہ سنی؛بلکہ آپ کو ناگوار ہوا اور فرمایا اگر بنی اسرائیل میں کوئی شریف آدمی چوری کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور اگر معمولی آدمی اس کا مرتکب ہوتا تھا تو اس کے ہاتھ کاٹتے تھے،خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹتا۔ [23] اسامہؓ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محرم راز اور معتمد علیہ تھے اوران کی حیثیت اہل بیت میں ممبر خاندان کی تھی، آپ اہم سے اہم اور نازک سے نازک خانگی امور تک میں بھی ان سے مشورہ لیتے تھے،افک جیسے نازک اور اہم معاملہ میں جس میں منافقین نے ناموس نبوت پر حرف لانا چاہا تھا اور جس کی صفائی خود زبان وحی والہام نے دی، اسامہؓ بھی حضرت علیؓ کے ساتھ شریک مشورہ تھے، چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب افک والوں نے اتہام لگایا تو آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علیؓ اور اسامہؓ بن زید سے اپنی اہل خانہ کی علیحدگی کے بارہ میں مشورہ کیا اور ان سے حالات دریافت کیے۔ [24] چونکہ آنحضرت اسامہؓ کو محبوب رکھتے تھے، اس لیے صحابہؓ کرام بھی ان کو بہت مانتے تھے، عمرؓ کا واقعہ اوپر گذر چکا ہے،صحابہؓ کرام نہ صرف اسامہؓ ؛بلکہ ان کی اولاد تک کا احترام کرتے تھے، ایک دن ابنِ عمرؓ نے ایک شخص کو مسجد کے گوشہ میں دیکھا، لوگوں سے کہا، دیکھو کون شخص ہے، کسی نے کہا ابو عبد الرحمن ،تم اس کو نہیں پہچانتے ،یہ اسامہؓ کے بیٹے محمد ہیں، آپ نے یہ سن کر سرجھکا لیا اور زمین کرید کر کہنے لگے کہ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دیکھتے تو محبوب رکھتے ۔ [25]

اس غیر معمولی محبت کی وجہ سے قدرۃ کچھ منافق اسامہؓ کے حاسد بھی پیدا ہو گئے تھے یہ لوگ اسامہؓ کو ذلیل اور آنحضرت کے کبیدہ خاطر کرنے کے لیے کہتے کہ اسامہؓ ، زیدؓ کے نطفہ سے نہیں ہیں، آنحضرت کو اس سے تکلیف پہنچتی ؛لیکن ان کے خاموش کرنے کا کوئی طریقہ نہ تھا، عربوں میں قیافہ شناسی کا ملکہ بہت تھا ،قائف کی بات عام طور پر ہم پایہ وحی سمجھی جاتی تھی،اتفاق سے ایک دن مجرز مدبحی جس کو قیافہ شناسی میں خاص مہارت تھی،آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت زیدؓ اور اسامہؓ دونوں سر سے پیر تک ایک چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے،صرف پاؤں کھلے ہوئے تھے اس نے یہ دیکھ کر کہا کہ یہ قدم ایک دوسرے سے پیدا ہیں، یہ سن کر آنحضرت کو بہت مسرت ہوئی،آپ حضرت عائشہؓ کے پاس ہنستے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا تم کو کچھ معلوم ہے، مجرز نے ابھی اسامہؓ کے پاؤں دیکھ کر کہا کہ یہ قدم ایک دوسرے سے پیدا ہیں، [26] اس واقعہ میں یہ بات لحاظ رکھنے کے قابل ہے کہ آنحضرت کو قائف کے کہنے پر محض اس وجہ سے مسرت ہوئی کہ اس سے دشمنوں کی زبان بند ہو گئی ورنہ شان نبوت اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کاہنوں ، منجموں اور قائفوں کی بات کا یقین کرے۔ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو چیز اچھی اور بیش قیمت ہوتی اس کو اسامہؓ کو دیتے،ذی یزن نے حالت شرک میں حکیم بن حرام کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں ہدیۃً ایک بیش قیمت حلہ پیش کیا، آپ نے فرمایا میں مشرک کا ہدیہ نہیں قبول کرتا، لیکن اب چونکہ تم لاچکے ہو اس لیے قیمتاً لے لوں گا، چنانچہ پچاس دینار میں خرید لیا اور ایک مرتبہ پہن کر اسامہؓ کو دیدیا۔ [27] دحیہ کلبی نے کتان کا کپڑا آنحضرت ﷺ کو ہدیہ دیا تھا، آپ نے اسامہؓ کو پہنا دیا، انھوں نے اپنی بیوی کو دیدیا، ایک دن آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پوچھا ، کتان کیوں نہیں پہنتے عرض کیا یا رسول اللہ بیوی کو دیدیا، فرمایا اچھا اس سے کہدو کہ نیچے سینہ بند پہن لے ورنہ بدن دکھائی دے گا، [28] غرض آپ اپنے اہل و عیال اور اسامہؓ بن زید میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے۔ [29]

فضل و کمال

ترمیم

اس لحاظ سے کہ حضرت اسامہؓ نے آنحضرت کے دامنِ تربیت میں پرورش پائی تھی، آپ کو سراپا علم ہونا چاہیے تھا، لیکن آنحضرت کی وفات کے وقت آپ کی عمر صرف اٹھارہ سال یا زیادہ سے زیادہ بیس سال کی تھی، اس لیے سن شعور کو پہنچنے کے بعد صحبت نبوی سے فیضیاب ہونے کا زیادہ موقع نہ ملا؛ تاہم اس مدت میں جو کچھ بھی آپ نے حاصل کر لیا، اس کو کم نہیں کہا جا سکتا، اقوال نبوی کا کافی ذخیرہ ان کے سینہ میں محفوظ تھا، بعض مرتبہ کبار صحابہ کو جس چیز کا علم نہ ہوتا، اس میں وہ ان کی طرف رجوع کرتے، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو جب طاعون کے متعلق کوئی حکم نہ ملا تو آپ نے اسامہؓ سے دریافت کیا کہ تم نے آنحضرت سے طاعون کے بارہ میں کیا سنا ہے، انھوں نے بتایا کہ آنحضرت فرماتے ہیں کہ طاعون ایک قسم کا عذاب ہے جو بنی اسرائیل کے ایک خاص طبقہ پر بھیجا گیا تھا، اس لیے جب تم سنو کہ فلاں جگہ طاعون پھیلا ہے تو وہاں نہ جاؤ اور خود تمھارے یہاں یہ وبا پھیلے وہاں سے بھاگنے کی نیت سے نہ نکلو۔ [30]

آپ کے عمل سے دوسرے لوگ سند لاتے تھے، حضرت میمونہ ؓ نے اپنے ایک عزیز کا ازار بہت نیچا دیکھا تو اس کو ملامت کی،انھوں نے کہا میں نے اسامہؓ بن زید کو نیچا ازار پہنے دیکھا ہے ،میمونہ نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، یہ ممکن ہے کہ ان کا پیٹ بھاری تھا،اس لیے اس پر نہ ٹھہرتا رہا ہو اور نیچے کھسک جاتا ہو۔ [31] آپ کی ذات سے حدیث کا معتدبہ حصہ اشاعت پزیر ہوا، ان کی مرویات کی تعداد 128 ہے،جن میں سے 15 متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ مزید دو دو بخاری اور مسلم میں ہیں، [32] حسن بن محمد ابن عباسؓ، ابوہریرہؓ ، کریب ،ابوعثمان نہدی، عمرو بن عثمان بن عفان، ابووائل ، عامر بن سعد ، حسن بصری وغیرہ نے آپ سے روایتیں کی ہیں۔

اخلاق و عادات

ترمیم

چونکہ اسامہؓ نے آنحضرت کے دامنِ تربیت میں پرورش پائی تھی، اس لیے ان پر قدرۃ تعلیمات نبویﷺ کا خاصا اثر پڑا تھا۔ [33]

خدمتِ رسولﷺ

ترمیم

کاشانہ نبوی میں کثرت سے آتے جاتے تھے،اور اکثر سفر میں بھی ہمرکابی کاشرف حاصل ہوا تھا، اس لیے خدمت نبوی ﷺ کا زیادہ موقع ملتا تھا، اکثر وضو وغیرہ کے وقت پانی ڈالنے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ [34]

پابندی سنت

ترمیم

سنت کی پابندی شدت سے کرتے تھے،آخر عمر میں جبکہ قویٰ ریاضت جسمانی کے متحمل نہ تھے، اس وقت بھی مسنون روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے،ایک مرتبہ ایک غلام نے کہا اب آپ کی عمر ضعف و ناتوانی کی ہے ، آپ کیوں دوشنبہ اور پنجشنبہ کے روزہ کا التزام کرتے ہیں،کہا آنحضرت ان دونوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ [35]

اطاعتِ والدین

ترمیم

والدین کی خوشنوی کا بہت زیادہ لحاظ رکھتے تھے اوراس میں بڑی مالی قربانی سے دریغ نہیں کرتے تھے، محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ بن عفان کے عہد خلافت میں کھجور کے درختوں کی قیمت ایک ہزار تک پہنچ گئی تھی،اس زمانہ میں اسامہؓ نے ایک درخت کی پیڑی کھو کھلی کرکے اس کا مغز نکالا،لوگوں نے پوچھا یہ کر رہے ہو،آج کل درختوں کی قیمت اس قدر بڑھی ہوئی ہے اورتم اس کو ضائع کرتے ہو، کہا میری ماں نے فرمائش کی تھی اوروہ جس چیز کی فرمائش کرتی ہیں، اگر اس کا حصول میرے امکان میں ہوتا ہے تو اس کو میں ضرور پوری کرتا ہوں۔ [36]

حوالہ جات

ترمیم
  1. عنوان : Усама ибн Зейд
  2. عنوان : Зейд ибн Хариса
  3. (ابن سعد ،جز4،قسم1صفحہ:64)
  4. (مزید تفصیل کے لیے دیکھو زرقانی:288،289/3)
  5. (صحیح مسلم کتاب الایمان)
  6. (طبقات ابن سعد حصہ مغازی:136،137، جسم مطہر کو قبر میں اتارنے کا واقعہ طبقات ،جلد2،ق2،صفحہ:67 میں ہے، مختصرا اس سریہ کا ذکر بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ زید بن حارثہ باب بعثت النبی ﷺ اسامہ بن زید میں بھی ہے)
  7. (تاریخ الخلفاء سیوطی:71)
  8. (تاریخ الخلفاء سیوطی:71)
  9. (ابن سعد حصہ مغازی:137)
  10. (مستدرک حاکم:559/3)
  11. (بخاری:462/1)
  12. (اصابہ:29/1)
  13. (بخاری:53/2)
  14. (استیعاب:29/1)
  15. (استیعاب:29/1)
  16. (ابن سعد حزو4،ق اول، صفحہ:50)
  17. (مسند احمد بن حنبل:205/5)
  18. (بخاری،جلد2،کتاب المناقب اسامہ بن زیدؓ)
  19. (مستدرک :596/3)
  20. (بخاری کتاب المغازی،باب بعث اسامہؓ)
  21. (ابن سعد جزء4،ق1،صفحہ:43)
  22. (ابن سعد،جز4،ق1،صفحہ:43)
  23. (بخاری،جلد2،کتاب المناقب ذکر اسامہؓ وطبقات ابن سعد)
  24. (بخاری ،جلد1،کتاب الشہادت وجلد2 ،کتاب الاعتصام باب قولہ تعالی وامرہم شوری بینہم)
  25. (بخاری،جلد1،کتاب المناقب ذکر اسامہؓ)
  26. (بخاری،جلد2کتاب الفرائض باب القائف)
  27. (ابن سعد جزو4،قسم اول،صفحہ:45)
  28. (ابن سعد جزو4،ق1،صفحہ:45)
  29. أسامة بن زيد، على موقع رسول الله. آرکائیو شدہ 2008-09-20 بذریعہ وے بیک مشین
  30. (بخاری:449/1)
  31. (ابن سعد،جزو4،ق1،صفحہ:49)
  32. (تہذیب الکمال:26)
  33. (تہذیب التہذیب 208/1)
  34. (بخاری،جلد1،کتاب الوضوباب الرجل یوضی صاحبہ)
  35. (مسند احمد بن حنبل:300/5)
  36. (ابن سعد،جزو4،ق1،صفحہ:49)