فاطمہ بنت قیس
فاطمہ بنت قیس بڑی عاقلہ اور صاحب علم صحابیہ تھیں۔
صحابیہ | |
---|---|
فاطمہ بنت قیس | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | فاطمہ بنت قیس بن خالد اکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ بن عمرو بن شیبان بن محارب بن فہر |
وجہ وفات | طبعی موت |
رہائش | مدینہ منورہ |
شوہر | اسامہ بن زید |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
نسب | الفہری ، القرشی |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمفاطمہ نام، سلسلۂ نسب یہ ہے: فاطمہ بنت قیس بن خالد اکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ بن عمرو بن شیبان بن محارب بن فہر۔ والدہ کا نام امیمہ بنت ربیعہ تھا اور بنی کنانہ سے تھیں۔ ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ سے انکا نکاح ہوا۔
اسلام
ترمیماسلام کے ابتدائی دور میں ایمان لائیں اور ہجرت کی۔
حالات زندگی
ترمیم10ھ میں امیر المومنین علی ایک لشکر لے کر یمن گئے تھے، ابو عمرو بھی ان کے ساتھ تھے، چلتے وقت عیاش بن ابی ربیعہ کی معرفت اپنی بیوی کو آخری طلاق (دو طلاق پہلے دے چکے تھے) اور 5، 5 صاع جو اور خرمے بھیجے، فاطمہ نے کھانے اور مکان کا مطالبہ کیا تو عیاش نے کہا کہ جو کچھ دیا گیا محض احسان ہے ورنہ ہمارے ذمہ یہ بھی ضروری نہیں، اس جواب پر فاطمہ کو غصہ آیا اور اپنے کپڑے لے کر آنحضرتﷺ کی خدمت میں گئیں خالد بن ولید وغیرہ بھی پہنچے، آپ نے دریافت کیا کہ انھوں نے تم کو کتنے مرتبہ طلاق دی؟ بولیں: تین مرتبہ۔ فرمایا: ’’اب تم کو نفقہ نہیں مل سکتا۔‘‘ تم اُمّ شریک کے ہاں عدت کے دن پورے کرو لیکن چونکہ اُمّ شریک کے اعزّہ و اقارب ان کے مکان میں آتے جاتے ہیں، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ’’ابن امّ مکتوم نابینا اور تمھارے ابنِ عم ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ تم ان کے ہاں رہو۔‘‘ عدت کا زمانہ پورا ہوا توہر طرف سے پیغام آئے۔ امیر معاویہ، ابو جہم اور اسامہ بن زید نے بھی پیغام دیا۔ لیکن آنحضرتﷺ نے پہلے دو شخصوں کا پیغام اس لیے مسترد کر دیا کہ اوّلُ الذکر مفلس اور دوسرے تند مزاج تھے پھر فاطمہ سے فرمایا کہ تم اسامہ سے نکاح کرلو۔ چونکہ فاطمہ کو خیال تھا کہ خود آنحضرتﷺ ان کو اپنی زوجیت کا شرف عطا فرمائیں گے اس لیے انکار کیا، ارشاد ہوا: ’’خدا اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کرو، اس میں تمھارے لیے بھلائی ہے۔‘‘یہ سن کر فاطمہ مجبور ہوئیں اور اسامہ ے نکاح کر لیا، کہتی ہیں کہ پھر میں قابلِ رشک بن گئی۔[1]
وفات
ترمیموفات کا سال معلوم نہیں، ابن زبیر کے زمانۂ خلافت تک زندہ رہیں۔23ھ میں جب عمر فاروق نے انتقال کیا تو مجلسِ شوریٰ کا اجلاس فاطمہ ہی کے مکان میں ہوتا تھا۔ 54ھ میں اسامہ نے انتقال فرمایا تو فاطمہ کو سخت صدمہ ہوا، دوسری شادی نہیں کی اور اپنے بھائی ضحاک کے ساتھ رہیں۔ جب یزید نے اپنے عہد حکومت میں ان کو عراق کا گورنر مقر۔ ّر کیا تو فاطمہ بھی ان کے ساتھ کوفہ چلی آئیں اور یہیں سکونت اختیار کی۔[2]
فضل وکمال
ترمیماسدالغابہ میں ہے: لَھَا عَقْلٌ وَکَمَالٌ۔ ترجمہ: یعنی وہ نہایت عقیل اور صاحب کمال تھیں۔ [3] حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی، عبد اللہ بن عمرو (بن عثمان) کومنسوب تھیں انھوں نے ان کوتین طلاقیں دیں، فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ ہوتی تھیں کہلا بھیجا کہ میرے گھر چلی آؤ، مروان نے قبیصہ کوبھیجا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سبب دریافت کرو، قبیصہ نے آکرکہا کہ آپ ایک عورت کوایام عدت گذرنے سے قبل کیوں گھر سے نکالتی ہیں، بولیں اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کویہی حکم دیا تھا، اس کے بعد اپنا واقعہ بیان کیا اور اس کی قرآن مجید سے تائید کی، قرآن مجید میں ہے: إِذَاطَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَاتُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَايَخْرُجْنَ إِلَّاأَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ۔ [4] ترجمہ:جب تم عورتوں کوطلاق دوتوان کوعدت کے وقت تک طلاق دو اور عدت کوشمار کرو اور خدا سے ڈرو اور ان کوان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ نکلیں مگریہ کہ کھلی ہوئی بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ یہ مراجعہ کی صورت تھی، اس کے بعد ہے: فَإِذَابَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْفَارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ۔ [5] ترجمہ:پس جب میعاد کوپہنچ جائیں توان کواچھی طرح روکے رکھو یااچھی طرح جدا کردو۔ اس بناپر تین مرتبہ کے بعد پھرکسی صورت کا احتمال نہیں ہے، اس کے بعد فرمایا کہ چونکہ تمھارے نزدیک عورت جب تک حاملہ نہ ہو اس کا نفقہ نہ دینا چاہیے، اس لیے اس کوروک رکھنا بالکل بے کار ہے، جب مروان کوحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اس گفتگو کی اطلاع ہوئی توکہا یہ ایک عورت کی بات ہے اور ان متعلقہ خاتون کوحکم دیا کہ اپنے گھرواپس آئیں؛ چنانچہ وہ واپس آئیں اور وہیں عدت گزاری۔ [6] حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چند حدیثیں روایت کی ہیں، جومتعدد اشخاص کے ذریعہ سے مروی ہیں، ان میں سے چند نام یہ ہیں: قاسم بن محمد، ابوبکر بن ابوالجہم، ابوسلمہ، سعید بن مسیب، عروہ، عبد اللہ بن عبد اللہ، اسود، سلیمان بن یسار، عبد اللہ البہی، محمدبن عبد الرحمان بن ثوبان، شعبی، عبد الرحمان ابن عاصم، تمیم۔
اخلاق
ترمیمعادات واخلاق نہایت شریفانہ تھے، شعبی جوان کے شاگرد تھے، ملنے کوآئے توانہوں نے چھوہارے کھلائے اور ستوپلایا۔ [7]