بحری مملوک
مصر و شام کے غلام بادشاہوں کو مملوک کہا جاتا ہے کیونکہ عربی میں مملوک غلام کو کہتے ہیں۔ یہ دو خاندانوں میں تقسیم تھے ایک خاندان بحری مملوکوں کا تھا جنھوں نے 647ھ سے 784ھ تک حکومت کی اور دوسرا خاندان مملوکوں کا تھا جنھوں نے 784ھ سے 922ھ تک حکومت کی۔
بحری مملوک Bahri Mamluks | |||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
1250–1382 | |||||||||
' | |||||||||
دار الحکومت | قاہرہ | ||||||||
مذہب | اہل سنت | ||||||||
تاریخ | |||||||||
• | 1250 | ||||||||
• | 1382 | ||||||||
|
بحری مملوک نسلا زیادہ تر ترک اور منگول تھے۔ یہ ملک صالح ایوبی کے غلام تھے اور چونکہ ان کو دریائے نیل کے کنارے آباد کیا گیا تھا اس لیے ان کو بحری مملوک کہا جاتا تھا۔ برجی مملوک زیادہ تر قفقاز کے رہنے والے سرکیشی غلام تھے۔ یہ بحری مملوکوں کے بادشاہ قلاوون کے حفاظتی دستے سے تعلق رکھتے تھے اور قلعوں میں تعینات تھے اس لیے ان کو برجی مملوک کہا جاتا تھا۔
ابتدا
ترمیمملک صالح کے انتقال کے بعد ایک ترک غلام تمر الدین ایبک نے سلطان کے جانشین تورون شاہ کو قتل کر دیا لیکن ملک صالح کی بیوہ شجرۃ الدر 80 دن تک حکومت کرتی رہی اور اپنے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا اور جب تمر الدین ایبک کو امرا نے بادشاہ منتخب کر لیا تو شجرۃ الدر نے اس سے شادی کرلی۔ یہی ایبک مصر میں غلام خاندانوں کا بانی ہے۔ ہند و پاک کے غلام بادشاہوں اور مصر کے غلام بادشاہوں کے درمیان کئی باتوں میں جو مشابہت پائی جاتی ہے ان میں سے ایک دلچسپ مشابہت یہ بھی کہ دونوں سلطنتوں کے غلام خاندان کے بانیوں کا نام ایبک تھا اور دونوں خاندانوں میں ایک ایک عورت نے حکومت کی۔ مصر میں شجرۃ الدر نے اور دہلی میں رضیہ سلطانہ نے۔
مملوکوں کی حکومت میں باپ کے بعد بیٹا جانشیں نہیں ہوتا تھا بلکہ جو غلام سردار طاقتور ہوتا تھا وہی حکومت پر قبضہ کرلیتا تھا۔ کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال ایک نیا سردار بادشاہ بن جاتا تھا؛ چنانچہ برجی مملوکوں کی 132 سال کی مختصر مدت میں 24 بادشاہ تخت پر بیٹھے۔ ان میں سے چار بادشاہ ایسے بھی ہیں جنھوں نے مجموعی طور پر 84 سال حکومت کی اور مصر کو مستحکم حکومت دی۔ انھی میں سے ایک ملک صالح کا غلام بیبرس تھا۔ جس نے بادشاہ ہونے کے بعد ملک الظاہر کا خطاب اختیار کیا۔
ملک الظاہر بیبرس
ترمیممکمل مضمون کے لیے دیکھیے رکن الدین بیبرس
بیبرس مملوکوں کا پہلا نامور حکمران تھا۔ اس نے 1260ء سے 1277ء تک 17 سال مصر و شام پر حکومت کی۔ وہ ہلاکو خان اور دہلی کے غیاث الدین بلبن کا ہمعصر تھا۔ بغداد کو تباہ کرنے کے بعد جب ہلاکو کی فوجیں شام کی طرف بڑھیں تو سپہ سالار بیبرس اور مملوک سلطان سیف الدین قطز 1260ء میں عین جالوت کے مقام پر ان کو فیصلہ کن شکست دی اور شام سے منگولوں کو نکال باہر کیا۔ بیبرس کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا۔ بییبرس نے نہ صرف منگولوں کے حملے کو پسپا کیا بلکہ خود ان کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ اس نے مصری سلطنت کی شمالی سرحد ایشیائے کوچک کے وسطی علاقوں تک پہنچادی۔
بیبرس کا دوسرا بڑا کارنامہ شام کے ساحل پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا ہے۔ یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے زمانے سے شام کے ساحلی شہروں پر قابض تھیں۔ نور الدین اور صلاح الدین نے گرچہ اندرون فلسطین سے انھیں نکال باہر کیا تھا لیکن ساحلی شہروں پر ان کا اقتدار عرصے تک قائم رہا۔ بیبرس نے ان یورپی ریاستوں میں انطاکیہ کی طاقتور ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے علاوہ اس نے کئی اور ساحلی شہر بھی فتح کیے۔
بیبرس نے مملوک سلطنت کو جنوب میں سوڈان کی طرف بھی وسعت دی اور نوبہ کا علاوہ بھی فتح کر لیا۔ اپنی انہی فتوحات اور کارناموں کی فجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں صلاح الدین کی طرح مشہور ہے اور وہ مصری عوام کا مقبول ترین ہیرو ہے۔
بیبرس ایک فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عادل اور بیدار مغز حکمران تھا۔ اس نے دور حکومت میں کئی اہم کارنامے انجام دیے جن میں خلافت کی سلسلے کی بحالی بھی شامل ہے۔ بغداد میں مستعصم باللہ کی شہادت کے بعد اسلامی دنیا تین سال تک بغیر کسی خلافت کے رہی۔ اتفاق سے ظاہر باللہ عباسی کا ایک لڑکا ابو القاسم احمد منگولوں کی قید سے چھوٹ کر 1262ء میں مصر آ گیا۔ بیبرس اس کو عزت و احترام کے ساتھ قاہرہ لایا اور اس کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی اور مصر میں اس کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔ اس طرح عباسی خلافت بغداد سے قاہرہ منتقل ہو گئی۔ مصر کے یہ عباسی خلفاء صرف نام کے ہوتے تھے اور اصل اقتدار مملوک بادشاہوں کے پاس ہوتا تھا۔
منصور قلاوون
ترمیممملوکوں کا دوسرا ممتاز حکمران منصور قلاوون ہے جو بیبرس کے دو سال بعد تخت نشین ہوا۔ وہ بھی بیبرس کی طرح ملک صالح کا غلام تھا۔ اس کا تعلق دشت قپچاق سے تھا۔
قلاوون کے عہد میں ایل خانی حکمرانوں اباقا خان اور ارغون نے یورپ کے مسیحیوں کو مصر کے خلاف ایک نئی صلیبی جنگ شروع کرنے اور بیت المقدس کو فتح کرنے کی ترغیب دی۔ اباقا خان نے مسیحیوں کے تعاون سے شام پر حملہ بھی کیا لیکن قلاوون نے حمص کے پاس 1280ء میں اباقا خان کو شکست دے کر اس منصوبے کو ناکام بنادیا۔
بیبرس کی طرح قلاوون نے بھی سرزمین شام پر مسیحی نو آبادیوں کے خلاف مہم جاری رکھی اور لطاکیہ اور طرابلس کو یورپی فوجوں سے چھین لیا۔ قلاوون کے بعد اس کے بیٹے اشرف جلال نے عکہ، صور، صیدا، حیفہ اور دیگر شہروں کو بھی فتح کر لیا اور اس طرح ساحل شام سے یورپی مسیحیوں کا اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
دیگر حکمران
ترمیمملک اشرف خلیل کے بعد 4،5 سال بدستور بے امنی رہی اور مصر کے تخت پر کئی سرداروں نے قبضہ کیا اور بے دخل ہوئے۔ بالآخر اس خانہ جنگ میں منصور قلاوون کا بیٹا محمد کامیاب ہوا۔ وہ تین مرتبہ تخت پر بیٹھا لیکن اگر اس ایک سال کی مدت کو نکال دیا جائے جب 1308ء میں ایک دوسرے سردار بیبرس جاشنگیر نے اس کو بے دخل کر دیا تھا، تو محمد نے 1298ء سے 1341ء تک پورے 42 سال مسلسل حکومت کی۔ مصر کے مملوک حکمرانوں میں اس کا دور سب سے طویل اور شاندار رہا۔ بادشاہ ہونے کے بعد اس نے ملک الناصر محمد کا خطاب اختیار کیا۔ ایل خانی بادشاہ غازان خان، الجائیتو خدا بندہ اور ابو سعید اس کے ہمعصر تھے اور دہلی کے بادشاہوں میں علاؤ الدین خلجی، غیاث الدین تغلق اور محمد تغلق اس کے ہم زمانہ تھے۔
ملک الناصر کے عہد میں ایل خانی منگولوں نے، جو اب مسلمان ہو چکے تھے، دو مرتبہ شام پر حملہ کیا۔ 1299ء میں پہلے حملے میں وہ دمشق تک آ گئے تھے جبکہ دوسرے حملے میں بھی وہ دمشق تک پہنچ گئے لیکن اس مرتبہ دمشق کے جنوب میں جنگ مرج الصفر میں 1303ء میں سلطان ناصر محمد نے منگولوں کو ایسی شکست دی کہ انھوں نے پھر کبھی شام کا رخ نہ کیا۔ اس جنگ میں مشہور عالم دین اور مصلح ابن تیمیہ نے نمایاں حصہ لیا۔ ملک ناصر کے عہد میں نوبہ کی تسخیر مکمل ہوئی جس کا آغاز بیبرس کے دور میں ہوا تھا۔
اس کے زمانے میں فن تعمیر نے بہت ترقی کی، ناصر کو عمارتیں بنوانے سے بہت دلچسپی تھی اور اس نے قاہرہ کو ایک حسین شہر بنادیا۔ اس کے اصلاحی کاموں میں قابل ذکر شراب پر پابندی ہے۔
سلاطین بحری مملوک کی فہرست
ترمیملقب | نام | دور حکومت | |
---|---|---|---|
الملکہ عصمہ الدین أم خلیل | شجر الدر | 1250-1250 | |
الملک المعز عز الدین أیبک الترکمانی الجاشنکیر الصالحی النجمی | عز الدین أیبک | 1250– 1257 | |
سلطان الاشرف | مظفر الدین موسی | 1250-1252 | |
سلطان المنصور | نور الدین علی | 1257-1259 | |
سلطان المظفر | سیف الدین قطز | 1259-1260 | |
سلطان ابو الفتوح الظاہر البندقداری |
رکن الدین بیبرس | 1260-1277 | |
سلطان السعید ناصر الدین | محمد برکہ خان | 1277-1279 | |
سلطان العادل | بدر الدین سُلامش | 1279 | |
المنصور الالفی الصالحی |
سیف الدین قلاوون | 1279-1290 | |
سلطان الاشرف | صلاح الدین خلیل | 1290 – 1293 | |
الناصر | ناصر الدین محمد | 1293-1294 (پہلا دور) | |
العادل، الترکی، المغلی | زین الدین کتبغا | 1294-1297 | |
المنصور | حسام الدین لاچین | 1297-1299 | |
الناصر | ناصر الدین محمد | 1299 - 1309 (دوسرا دور) | |
سلطان المظفر الجاشنکیر | رکن الدین بیبرس دوم | 1309 | |
الناصر | ناصر الدین محمد | 1309 - 1340 (تیسرا دور) | |
المنصور | سیف الدین أبو بکر | 1340-1341 | |
الأشرف | علاء الدین کجک | 1341-1342 | |
سلطان الناصر | شھاب الدین أحمد | 1342 | |
سلطان الصالح | عماد الدین إسماعیل | 1342 – 1345 | |
سلطان الکامل | سیف الدین شعبان | 1345 - 1346 | |
سلطان المظفر | سیف الدین حاجی | 1346-1347 | |
الناصر أبو المعالی | بدر الدین الحسن | 1347-1351 (پہلا دور) | |
سلطان الصالح | صلاح الدین بن محمد | 1351-1354 | |
الناصر أبو المعالی ناصر الدین | بدر الدین الحسن | 1354 - 1361 (دوسرا دور) | |
المنصور | صلاح الدین محمد | 1361-1363 | |
الأشرف أبو المعالی | زین الدین شعبان | 1363-1376 | |
المنصور | علاء الدین علی | 1376 - 1382 | |
سلطان الصالح | صلاح الدین حاجی | 1382 | |
الظاہر | سیف الدین برقوق | 1382 - 1389 | |
سلطان الصالح المظفر المنصور | صلاح الدین حاجی | 1389 | |
برجی مملوک نے مملوک سلطنت کی حکومت کی باگڈور سنبھال لی- |
- پیلا رنگ کا خانہ ایوبی سلطنت کے آخری چشم و چراغ کی نشان دہی کرتا ہے -
- * چاندی رنگ کا خانہ برجی مملوک کے سلطان کی نشان دہی کرتا ہے -