بینظیر بھٹو
بے نظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔ وہ ایشیا میں بھی خواتین رہنما کے طور پر پاکستان کی پہچان تھیں پاکستان کے پہلے انقلابی راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی سیاست کے اتار چڑھاؤ میں گزری۔ جس کی وجہ سے ان کو پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل تھا۔
بینظیر بھٹو | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(اردو میں: بینَظِیر بُھٹّو)،(سندھی میں: بينظير ڀُٽو) | |||||||
مناصب | |||||||
وزیر اعظم پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 2 دسمبر 1988 – 6 اگست 1990 |
|||||||
| |||||||
وزیر دفاع پاکستان [1] | |||||||
برسر عہدہ 4 دسمبر 1988 – 6 اگست 1990 |
|||||||
قائد حزب اختلاف (پاکستان) | |||||||
برسر عہدہ 6 نومبر 1990 – 18 اپریل 1993 |
|||||||
| |||||||
وزیر اعظم پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 19 اکتوبر 1993 – 5 نومبر 1996 |
|||||||
| |||||||
وزیر خزانہ پاکستان [2] | |||||||
برسر عہدہ 26 جنوری 1994 – 10 اکتوبر 1996 |
|||||||
قائد حزب اختلاف (پاکستان) | |||||||
برسر عہدہ 17 فروری 1997 – 12 اکتوبر 1999 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 21 جون 1953ء [3][4][5][6][7][8][9] کراچی [10] |
||||||
وفات | 27 دسمبر 2007ء (54 سال)[11][4][5][9] راولپنڈی [12] |
||||||
وجہ وفات | دہشت گردانہ حملہ | ||||||
مدفن | مزار قائد عوام | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | پاکستان [13] | ||||||
جماعت | پاکستان پیپلز پارٹی | ||||||
رکنیت | فی بیٹا کاپا سوسائٹی | ||||||
شریک حیات | آصف علی زرداری | ||||||
اولاد | بلاول بھٹو زرداری ، بختاور بھٹو زرداری ، آصفہ بھٹو زرداری | ||||||
والد | ذوالفقار علی بھٹو | ||||||
والدہ | نصرت بھٹو | ||||||
بہن/بھائی | صنم بھٹو ، شاہنواز بھٹو ، مرتضیٰ بھٹو |
||||||
خاندان | بھٹو خاندان | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | ریڈکلف کالج لیڈی مارگریٹ ہال ہارورڈ یونیورسٹی سینٹ کیتھرینز کالج کونونٹ آف جیسس اینڈ میری، کراچی کراچی گرائمر اسکول کونونٹ آف جیسس اینڈ میری، مری سینٹ اینز پریزنٹیشن کانونٹ ہائی اسکول، راولپنڈی |
||||||
تعلیمی اسناد | ڈاکٹر نوک | ||||||
پیشہ | سیاست دان | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی [14][15] | ||||||
الزام و سزا | |||||||
جرم | منی لانڈرنگ | ||||||
اعزازات | |||||||
شعبۂ انسانی حقوق کا اقوام متحدہ انعام (2008) برونو كرايسكی اعزاز |
|||||||
دستخط | |||||||
ویب سائٹ | |||||||
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ، باضابطہ ویب سائٹ | ||||||
IMDB پر صفحہ | |||||||
درستی - ترمیم |
بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہيں مگر مدت مکمل نہ کر سکیں۔ 2007ء میں ان کی غیر متوقع موت نے پاکستان کے سیاسی حالات کو بدل کر رکھ دیا۔
اپنی زندگی کے جوانی کے ایام میں ہی انھوں نے اپنے والد کے سیاسی دشمنوں کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا۔ صعوبتیں اور تکالیف برداشت کیں۔ ان کے والد ذو الفقار علی بھٹو کی موت اور ان کی عوام دوست رویوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی اپنے عروج تک پہنچ گئی۔ مگر ان کی وفات کے بعد پارٹی قیادت کو ان کے شوہر نے مشکوک طریقے سے اپنے ہاتھ میں لیا۔
حالات زندگی
ابتدائی حالات
ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی صاحبزادی سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو 21 جون، 1953ء میں سندھ کے مشہور سیاسی بھٹو خاندان میں پیدا ہوئیں۔
تعلیم
بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری اسکول (Lady Jennings Nursery School) اور کونونٹ آف جیسز اینڈ میری (Convent of Jesus and Mary) کراچی میں حاصل کی۔ اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ (Rawalpindi Presentation Convent) میں بھی تعلیم حاصل کی، جبکہ انھیں بعد میں مری کے جیسس اینڈ میری میں داخلہ دلوایا گیا۔ انھوں نے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ اپریل 1969ء میں انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe College میں داخلہ لیا۔ بے نظیر بھٹو نے ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) سے 1973ء میں پولیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کر لیا۔ اس کے بعد انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انھوں نے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔ وہ اکسفورڈ یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے درمیان کافی مقبول رہیں۔
عملی زندگی
بے نظیر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔ لیکن ان کے پاکستان پہنچنے کے دو ہفتے بعد حالات کی خرابی کی بنا پر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جنرل ضیاءالباطل نے ذو الفقار علی بھٹو کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا گیا۔ اپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذو الفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔
سیاست میں آمد
1981ء میں بے نظیر بھٹو کو نظر بند کر دیا گیا سکھر جیل میں، جہاں انھوں نے زندگی کے مشکل ترین دن گزارے۔[16]
1981ء میں مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا۔ جس میں آمریت کے خلاف 14 اگست، 1983ء سے بھر پور جدوجہد شروع کی، تحریک کی قیادت کرنے والے غلام مصطفٰی نے دسمبر 1983ء میں تحریک ختم کرنے کا اعلان کیا، لیکن عوام نے جدوجہد جاری رکھی۔ 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ملک سے مارشل لا اٹھائے جانے کے بعد جب اپریل 1986ء میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے لاہور میں مینار پاکستان کے میدان میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا اس وقت اہل لاہور کا ایسا جم غفیر تھا کہ داتا دربار چوک سے مینارِ پاکستان کی محض ایک کلومیٹر سے بھی کم کا راستہ طے کرنے کے لیے ساڑھے تین گھنٹے کا وقت لگا۔ بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جِدوجُہد کا دامن بھی نہیں چھوڑا۔
17 اگست، 1988ء میں ضیاءالباطل طیارے کے دھماکے میں مارے گئے تو ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کا دروازہ کھلا۔ سینیٹ کے چئیرمین غلام اسحاق کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔ جس نے نوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ 16 نومبر، 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ اور بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ 6 اگست، 1990ء میں بیس ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو بے پناہ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا۔ 2 اکتوبر، 1990ء کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس میں نواز گروپ اور بے نظیر حکومت کی مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے الائنس بنایا۔ جس کے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں اسلامی جمہوری اتحاد کے عطائی پلیٹ فارم سے نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ جبکہ بے نظیر قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔ 1993ء میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو بھی بد عنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔ جس کے بعد اکتوبر، 1993ء میں عام انتخابات ہوئے۔ جس میں پیپلز پارٹی اور اس کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں۔ پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میں بے امنی اور بد عنوانی، کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
بدعنوانی اور دیگر الزامات
بے نظیر اپنے پہلے دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو امریکا کے کہنے پر رول بیک کرنے کے لیے تیار ہو گئی تھیں لیکن آرمی کے دباؤ کی وجہ سے نہ کر سکیں، اس بات کو بے نظیر کی پاکستان دشمنی تصور کیا گیاآپ اور آپ کے خاوند آصف علی زرداری پر مالی بدعنوانی کے بیشتر الزامات ہیں اور اس سلسلہ میں دنیا کے مختلف ممالک میں مقدمات قائم ہیں۔[17] اکتوبر 2007ء میں بینظیر امریکی امداد سے پرویز مشرف کی حکومت سے سازباز کے نتیجے میں اپنے خلاف مالی بدعنوانی کے تمام مقدمات ختم کروانے میں کامیاب ہو گئیں۔[18][19]قومی مفاہمت فرمان کے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران قومی احتساب دفتر نے عدالت کو بتایا گیا کہ آصف علی زرداری نے بینظیر کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کیے۔[20][21]
فوجی تاخت 2007ءبینظیر نے فوجی آمر پرویز مشرف کی طرف سے 3 نومبر 2007ء کو ہنگامی حالات کے نفاذ اور منصف اعظم پاکستان افتخار محمد چودھری کو ہٹانے کی درپردہ حمایت کی۔[22] تاہم بیان بازی کی حد تک بینظیر نے اس فوجی اقدام پر کچھ عرصہ تنقید کی، مگر بعد میں کھلم کھلا حمایت کی۔[23]
قبل از قتل
بے نظیر نے اپنے بھائی مرتضٰی کے قتل اور اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں دبئی میں قیام کیا۔ اسی دوران بے نظیر، نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی کی بنیاد ڈالی۔ اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا۔ ان کی خود ساختہ جلاوطنی کے دوران ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی۔ جب 14 مئی 2006ء میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر کے درمیان میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ دوسری پیش قدمی اس وقت ہوئی جب 28 جولائی 2007ء کو ابوظہبی میں جنرل مشرف اور بے نظیر کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تقریباً ساڑھے آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر کا کارواں شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 150 افراد موت کی نیند سو گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے۔ قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر کو بحفاظت بلاول ہاؤس پہنچا دیا گیا۔
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن جب اپنے بچوں(بلاول، بختاور اور آصفہ) سے ملنے دوبارہ دوبئی گئیں تو ملک کے اندر جنرل مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بے نظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ اس وقت تک ملک میں نگران حکومت بن چکی تھی اور مختلف پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے میں بٹی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے۔ اور کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے۔
متنازع بیانات
- بے نظیر کے نے لال مسجد آپریشن کی کھل کر حمایت کی۔
- ایک انٹرویو میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ امریکی افواج کو پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی اجازت دے دیں گی۔ جس کے بعد وہ پاکستان کے وجود کے لیے ایک خطرہ کہا جانے لگا۔
- ایک اور موقع پر انھوں نے کہا کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ ملک کے عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبد القدیرخان کو پوچھ گچھ کے لیے امریکا کے حوالے کر دیں گی۔
محترمہ کے ان بیانات نے پاکستانی قوم میں بڑا اضطراب پیدا کر دیا۔ قوم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ کرسی کے حصول کے لیے امریکا اور مغرب کو خوش کرنے کی خاطر محترمہ کس حد تک جا سکتی ہیں۔
کتابیں
Pakistan : The Gathering Storm[24]
Reconciliation: Islam Democracy and the West
daughter of east
آخری ایام
زندگی کے آخری دنوں میں وہ پاکستان آئیں تھی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے۔
پہلا قاتلانہ حملہ (سانحہ کارساز)
18 اکتوبر 2007ء کو جب وہ پاکستان واپس آئیں تو کراچی ایئر پورٹ سے باہر شارع فیصل پر ان کے قافلے پر حملہ ہوا تاہم وہ بچ گئیں۔
قتل
27 دسمبر 2007ء کو جب بے نظیر لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر اسلام آباد آ رہی تھیں کہ لیاقت باغ کے مرکزی دروازے پر پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے کارکن بے نظیر بھٹو کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ اس دوران جب وہ پارٹی کارکنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے گاڑی کی چھت سے باہر نکل رہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائرنگ کر دی۔ اس کے بعد بے نظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلے پر ایک زوردار دھماکا ہوا جس میں ایک خودکش حملہ آور جس نے دھماکا خیز مواد سے بھری ہوئی بیلٹ پہن رکھی تھی، خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس دھماکے میں بینظیر بھٹو جس گاڑی میں سوار تھیں، اس کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن گاڑی کا ڈرائیور اسی حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گئیں۔[25] بے نظیر کی وصیت کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت ان کے 19 سالہ بیٹے بلاول کے سپرد کر دی گئی۔[26] اس وقت یہ اعلان بھی کیا گیا کہ آئندہ سے بلاول زرداری کا نام بلاول بھٹو زرداری ہوگا۔ اور یہ سب اس لیے کیا گیا کہ عوام کے لیے سیاست اور جدوجہد کا نشان و علامت بھٹو ہے اگر اس کے نام کے ساتھ بھٹو نہ ہوا تو لوگ اس کی قیادت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی شخصیت نے اپنے باپ کے ساتھ ماں کے قبیلے کو بھی نام کا حصہ بنایا تھا۔ اس سے قبل اس طرح کا کوئی عمل سامنے نہیں آیا تھا۔ مخالفین نے اس پر بہت تنقید کی اور اس کو سیاسی شعبدہ بازی اور سیاسی چال قرار دیا۔
2 نومبر 2007ء کو ڈیوڈ فراسٹ سے بات چیت میں بے نظیر نے دعویٰ کیا تھا کہ اسامہ بن لادن کو عمر شیخ نے قتل کر دیا تھا۔[27] عمر شیخ کو پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں برطانوی خفیہ ایجنسی MI5 کا ایجنٹ بتایا ہے۔
قتل کی تحقیقات
پیپلزپارٹی نے حکومت بنانے کے بعد بے نظیر کے قتل کی تحقیقات اپنے پرانے مطالبے کے مطابق اقوام متحدہ سے کروانے کے لیے درخواست دی جو اس نے قبول کر لی۔ آصف علی زرداری نے بے نظیر کے قتل کی پہلی برسی پر دعویٰ کیا کہ انھیں معلوم ہے کہ قاتل کون ہیں۔ البتہ صدر مملکت بن جانے کے بعد قتل کی دوسری برسی پر اپنی تقریر میں اس بارے میں کچھ نہ بتا سکے۔ اس تقریر کو مبصرین نے گھٹیا درجہ کی بتایا۔[28]
سابق رئیس عسکریہ مرزا اسلم بیگ نے دعویٰ کیا کہ بے نظیر کو بلیک واٹر نے قتل کیا تھا۔[29] بعض حلقوں میں یہ تاثر عام ہے کہ قتل ڈک چینی کے حکم پر ہوا لیکن اکثر کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے اس کے قتل سے سب سے زیادہ نقصان امریکا کو ہوا کیونکہ اس نے کچھ ایسی امریکی خدمات سر انجام دینے کا وعدہ کیا تھا جس سے امریکا کو پاکستان کے اندر اپنے مفادات حاصل کرنا بالکل آسان ہو جاتا۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ بنام: Benazir Bhutto — اخذ شدہ بتاریخ: 25 اپریل 2022
- ↑ بنام: Benazir Bhutto
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118852477 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb121195680 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Benazir-Bhutto — بنام: Benazir Bhutto — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/23574601 — بنام: Benazir Bhutto — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/bhutto-benazir — بنام: Benazir Bhutto — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Babelio author ID: https://www.babelio.com/auteur/wd/163340 — بنام: Benazir Bhutto
- ^ ا ب عنوان : Hrvatska enciklopedija — Hrvatska enciklopedija ID: https://www.enciklopedija.hr/Natuknica.aspx?ID=7420 — بنام: Benazir Bhutto
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Benazir-Bhutto — اخذ شدہ بتاریخ: 26 مئی 2024
- ↑ https://web.archive.org/web/20080209132427/http://www.time.com:80/time/world/article/0,8599,1698466,00.html — سے آرکائیو اصل
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118852477 — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ تاریخ اشاعت: 13 نومبر 2012 — https://libris.kb.se/katalogisering/wt7bgv2f0vphhtw — اخذ شدہ بتاریخ: 24 اگست 2018
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb121195680 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/135798371
- ↑ ریاض سہیل (26 مئ 2023)۔ "بینظیر بھٹو کے سکھر جیل میں قید کے دن کیسے تھے؟"۔ بی بی سی اردو
- ↑ روزنامہ دا ایج، آسٹریلیا، 31 دسمبر 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ business.theage.com.au (Error: unknown archive URL) "Corruption shadow casts Bhutto in a different light"
- ↑ روزنامہ نیشن، 11 اکتوبر 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Benazir to escape Swiss court trial"
- ↑ انڈیپینڈنٹ، 8 اکتوبر 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.independent.co.uk (Error: unknown archive URL) "Britain and US in 'safe return' deal for Bhutto"
- ↑ آسٹریلین، 18 دسمبر 2009ء، "Asif Ali Zardari on shaky ground after amnesty overturned "
- ↑ دی آسٹریلین 10 دسمبر 2009ء، "Watchdog claims Zardari reaped $1.7bn during Bhutto's rule "
- ↑ روزنامہ نیشن، 4 نومبر 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "'Phone call' that led to emergency"
- ↑ روزنامہ ڈان، "کامران شافی:Boycott, that’s what "
- ↑ وفیات پاکستانی اہل قلم خواتین از خالد مصطفی صفحہ 53
- ↑ روزنامہ نیشن، 28 دسمبر 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "Nation outraged at Benazir's assassination"
- ↑ انڈیپنڈنٹ، 31 دسمبر 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ comment.independent.co.uk (Error: unknown archive URL) "Tariq Ali: My heart bleeds for Pakistan. It deserves better than this grotesque feudal charade"
- ↑ یو ٹیوب یوٹیوب پر
- ↑ روزنامہ نیشن، 28 دسمبر 2009ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ nation.com.pk (Error: unknown archive URL) "President's threat perception"
- ↑ "بینظیر بھٹو کو امریکہ نے بلیک واٹر کے ذریعے قتل کرایا: جنرل (ر) اسلم بیگ"۔ نوائے وقت۔ 29 دسمبر 2009ء
سیاسی عہدے | ||
---|---|---|
خالی عہدے پر پچھلی شخصیت محمد خان جونیجو
|
وزیراعظم پاکستان 1988 – 1990 |
مابعد |
ماقبل | وزیر خزانہ پاکستان 1988ء – 1990ء |
مابعد |
ماقبل | وزیر دفاع پاکستان 1988ء – 1990ء |
مابعد |
ماقبل | وزیراعظم پاکستان 1993ء – 1996ء |
مابعد |
ماقبل | وزیر خزانہ پاکستان 1994ء – 1996ء |
مابعد |
سیاسی جماعتوں کے عہدے | ||
ماقبل | چئیرپرسن پاکستان پیپلز پارٹی{{{2}}} 1982 – 2007 |
مابعد بلاول بھٹو زرداری{{{2}}}
|
مابعد آصف علی زرداری{{{2}}}
|
ویکی ذخائر پر بینظیر بھٹو سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |