جن کا لغوی معنی۔ چھپی ہوئی مخلوق۔ اسلامی عقیدے کے مطابق ایسی نظر نہ آنے والی مخلوق جس کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔ جب کہ انسان مٹی اور ملائکہ نور سے بنائے گئے ہیں۔ جنوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے روپ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں جنات کا ذکر آیا ہے۔ قرآن شریف میں جنات کے نام پر ایک پوری سورت ”سورہ جن“ موجود ہے۔ جس کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے کہ جنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن پڑھتے سنا اور اسے عجیب و غریب پایا تو اپنے ساتھیوں کو بتایا اور وہ مسلمان ہو گئے۔[1]

مجلس جن غار

ابلیس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جنوں میں سے تھا۔ چنانچہ جب اسے حضرت آدم کو سجدہ کرنے کے لیے کہا گیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور آدم مٹی سے۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ابلیس ناری ہے۔ مگر عبادت و ریاضت سے بلند مقام پر پہنچ گیا تھا۔ اور فرشتوں میں شمار ہونے لگا تھا۔

ابنِ عباس فرماتے ہیں!

ابلیس فرشتوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جسے جن کہا جاتا ہے اس قبیلہ کے فرشتوں کو آگ کی گرم لو سے پیدا کیا گیا تھا (یہ لو شعلہ میں نظر نہیں آتی صر ف محسوس کی جا سکتی ہے اور تمام حدت اسی میں ہو تی ہے) ابلیس کا نام حارث تھا اور یہ جنت کے پہرے داروں میں سے ایک پہرے دار تھا اس کے علاوہ باقی تمام فرشتوں کو نور سے پیدا کیا .

ایک اور جگہ فرمایا.

ابلیس فرشتوں کا سردار تھا اور اس کا قبیلہ ان سب سے معزز و محترم تھا اس کے علاوہ یہ بہشت کے باغات پر بھی نگران تھا اسے آسمان دنیا اور زمین کی بادشاہت بھی بخشی گئی تھی.

ابو مالک رحمۃاللہ علیہ اور ابو صالح رحمۃاللہ علیہ ابنِ عباس اور مرہ ہمدانی ابنِ مسعود اور دیگر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ کہ انھوں نے فر مایا ! ابلیس کو آسمان دنیا پر مقرر کیا گیا تھا اس کا تعلق فرشتوں کے اس گروہ سے تھا جس جن کہا جاتا ہے ان کا نام جن اس لیے رکھا گیا تھا کہ یہ جنت کے محافظ و نگران تھے اور ابلیس بھی اپنی بادشاہت کے ساتھ ساتھ محافظ و نگران تھا۔ اور یہ بہت زیادہ عبادت گزار تھا (تاریخ طبری)

اسلام سے پہلے بھی عربوں میں جنوں کے تذکرے موجود تھے۔ اس زمانے میں سفر کرتے وقت جب رات آجاتی تھی تو مسافر اپنے اپ کو جنوں کے سردار کے سپرد کر کے سو جاتے تھے۔ جنات نے دنیا میں فتنہ و فساد برپا کر رکھا تھا۔ قرآن میں حضرت سلیمان کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ ان کی حکومت جنوں پر بھی تھی۔ حضرت سلیمان نے جو عبادت گاہیں ’’ہیکل‘‘ بنوائی تھیں۔ وہ جنوں نے ہی بنائی تھیں۔

قرآنی دلائل

ترمیم

کتاب و سنت کی نصوص جنوں کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور ان کو اس زندگی اور وجود دینے کا مقصد اور غرض و غایت اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری ہی عبادت کریں" [2]

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"اے جنوں اور انسانوں کی جماعت کیا تمھارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے" [3]

اور جنوں کی مخلوق ایک مستقل اور علاحدہ ہے جس کی اپنی ایک طبیعت ہے جس سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں اور ان کی وہ صفات ہیں جو انسانوں پر مخفی ہیں تو ان میں اور انسانوں میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ ہے کہ عقل اور قوت مدرکہ اور خیر اور شر کو اختیار کرنے میں ان دونوں کی صفات ایک ہیں اور جن کو جن چھپنے کی وجہ سے کہا جاتا ہے یعنی کہ وہ آنکھوں سے چھپے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

" بے شک وہ اور اس کا لشکر تمھیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے " ۔[4]

جنات کی تخلیق

ترمیم

قرآن میں جنات کی تخلیق کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:

خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ
’’اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا‘‘۔

— 

ابو الاعلیٰ مودودی مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ

اصل الفاظ ہیں مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۔ نار سے مراد ایک خاص نوعیت کی آگ ہے ،نہ کہ وہ آگ جو لکڑی یا کوئلہ جلانے سے پیدا ہوتی ہے اور مارج کے معنی ہیں خالص شعلہ، جس میں دھواں نہ ہو۔ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کے جسد خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی۔ اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا اور بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے لیکن جس طرح ہم محض ایک تودہ خاک نہیں ہیں اسی طرح وہ بھی محض شعلہ آتشیں نہیں ہیں۔‘‘[5]

ابن کثیر نے مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں لکھا ہے کہ

’صَلْصَالٍ‘ خشک مٹی کو کہتے ہیں اور جس مٹی میںآواز ہووہ فخار کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی جو آگ میں پکی ہوئی ہو اسے ”ٹھیکری“ کہتے ہیں ۔ مَّارِجٍ سے مراد سب سے پہلا جن ہے جسے ابو الجن کہا جا سکتا ہے جیسے آدم کو ابوالآدم کہا جاتا ہے ۔ لغت میں ”مارج“ آگ سے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔[6]

اسی طرح کا ایک ذکر القرآن 27-15:26 میں آیا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَـمَاٍ مَّسْنُونٍ وَالْجَآنَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ
’’اور البتہ تحقیق ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو سڑے ہوئے گارے سے تھی پیدا کیا۔اور ہم نے اس سے پہلے جنوں کو آگ کے شعلے سے بنایا تھا۔ ۔‘‘

— 

مختلف روایات کہ مطابق انسان کی تخلیق سے قبل دنیا میں جن دو ہزار سال سے آباد تھے۔

جنوں کی اصلیت

ترمیم

اللہ تعالٰی اپنی عزت والی کتاب میں جنوں کی اصلی خلقت کے متعلق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں۔

"اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو لو والی آگ سے پیدا کیا " [7]

اور ارشاد باری تعالٰی ہے :

"اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا " [8]

اور عائشہ ا سے صحیح حدیث میں مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

فرشتے نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جنوں کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم علیہ السلام کی پیدائش کا وصف تمھیں بیان کیا گیا ہے۔[9]

جنوں کی اقسام

ترمیم

اللہ تعالٰی نے جنوں کی مختلف اقسام پیدا فرمائی ہیں جو اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں مثلا کتے سانپ۔

  • اور کچھ وہ ہیں جو پروں والے ہیں اور ہواؤں میں اڑتے ہیں ۔
  • اور کچھ وہ ہیں جو آباد ہونے والے ہیں اور کوچ کرنے والے ہیں ۔

ابو ثعلبہ خشنی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ :

جنوں کی تین قسمیں ہیں ایک قسم کے پر ہیں اور ہواؤں میں اڑتے پھرتے ہیں ۔ اور ایک قسم سانپ اور کتے ہیں اور ایک قسم آباد ہونے والے اور کوچ کرنے والے ہیں۔[10]

جن اور آدم کی اولاد

ترمیم

اولاد آدم کے ہر فرد کے ساتھ اس کا جنوں میں سے ایک ہم نشین ہے ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

تم میں سے ہر ایک کے ساتھ جنوں میں سے اس کا ہم نشین (قرین ) ہے۔ تو صحابہ نے کہا اے اللہ کے رسول اور آپ؟ تو انھوں نے فرمایا اور میں بھی مگر اللہ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہو گیا ہے تو وہ مجھے بھلائی کے علاوہ کسی چیز کا نہیں کہتا۔[11]

قاضی کا کہنا ہے کہ جان لو کہ امت اس پر مجتمع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیطان سے جسمانی اور زبانی اور حواس کے اعتبار سے بھی بچائے گئے ہیں تو اس حدیث میں ہم نشین (قرین) کے فتنہ اور وسوسہ اور اس کے اغوا کے متعلق تحذیر ہے یعنی اس سے بچنا چاہیے کیونکہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم اس سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کریں ۔

طاقت اور قدرت

ترمیم

اللہ تعالیٰ نے جنوں کو وہ قدرت دی ہے جو انسان کو نہیں دی۔ اللہ تعالٰی نے ہمارے لیے ان کی بعض قدرات بیان کی ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں۔

  • انتقال اور حرکت کے اعتبار سے سریع ہیں۔ اللہ تعالٰی کے نبی سلیمان علیہ السلام سے ایک سخت اور چالاک جن نے یمن کی ملکہ کا تخت بیت المقدس میں اتنی مدت میں لانے کا وعدہ کیا کہ ایک آدمی مجلس سے نہ اٹھا ہو ۔

ارشاد باری تعالٰی ہے ۔

ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا اس سے پہلے کہ آپ اپنی مجلس سے اٹھیں میں اسے آپ کے پاس لا کر حاضر کردوں گا یقین مانیں میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار جس کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں میں اس سے بھی پہلے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں جب آپ نے اسے اپنے پاس پایا تو فرمانے لگے یہ میرے رب کا فضل ہے۔[12]

جنوں کا کھانا اور پینا

ترمیم

جنات کھاتے پیتے ہیں :

عبد اللہ بن مسعود بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ( میرے پاس جنوں کا داعی آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور ان پر قرآن پڑھا فرمایا کہ وہ ہمیں لے کر گیا اور اپنے آثار اور اپنی آگ کے آثار دکھائے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے زاد راہ ( کھانے ) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمھارے ہاتھ آئے گی تو وہ گوشت ہوگی اور ہر مینگنی تمھارے جانوروں کا چارہ ہے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان دونوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمھارے بھائیوں کا کھانا ہے )[13]

اور ایک روایت میں ہے کہ ( بیشک میرے پاس نصیبی جنوں کا ایک وفد آیا اور وہ جن بہت اچھے تھے تو انھوں نے مجھے کھانے کے متعلق پوچھا تو میں نے اللہ تعالٰی سے ان کے لیے دعا کی کہ وہ کسی ہڈی اور لید کے پاس سے گذریں تو وہ اسے اپنا کھانا پائیں )[14]

تو جنوں میں سے مومن جنوں کا کھانا ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے لیے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو اسے ان کے لیے مباح قرار نہیں دیا اور وہ جس پر بسم اللہ نہیں پڑھی گئی وہ کافر جنوں کے لیے ہے ۔

جنوں کے جانور

ترمیم

ابن مسعود کی سابقہ حدیث میں ہے کہ جنوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کھانے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا : اور ہر مینگنی تمھارے جانوروں کا چارہ ہے

جنوں کی رہائش

ترمیم

جس زمین پر انسان زندگی گزار رہے ہیں اسی پر کچھ جن کی اقسام بھی رہتے ہیں اور ان کی رہائش اکثر خراب جگہوں اور گندگی والی جگہ ہے مثلا لیٹرینیں اور قبریں اور گندگی پھینکنے اور پاخانہ کرنے کی جگہ تو اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان جگہوں میں داخل ہوتے وقت اسباب اپنانے کا کہا ہے اور وہ اسباب مشروع اذکار اور دعائیں ہیں ۔

انہی میں سے انس بن مالک کی حدیث ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بیت الخلاء جاتے تو یہ کہا کرتے تھے

اللهم اٍني اعوذ بک من الخبث والخبائث

ترجمہ: اے اللہ میں خبیثوں اور خبیثنیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔[15]

خطابی کا قول ہے کہ الخبث یہ خبیث کی جمع ہے اور الخبائث یہ خبیثہ کی جمع ہے اور اس سے مراد شیطانوں میں سے مذکر اور مؤنث ہیں جنوں میں مومن بھی اور کافر بھی ہیں :

جنوں کے متعلق اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔ " ہم میں بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہیں پس جو فرماں بردار ہو گئے انھوں نے تو راہ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے الجن 14۔ 15

بلکہ ان میں سے مسلمان اطاعت اور اصلاح کے اعتبار سے مختلف ہیں سورہ الجن میں اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے

" اور یہ کہ بیشک بعض تو ہم میں سے نیکوکار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں الجن : 11

اور اس امت کے پہلے جنوں کا اسلام لانے کا قصہ عبد اللہ بن عباس ما کی حدیث میں آیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کچھ صحابہ م کے ساتھ سوق عکاظ جانے کے ارادہ سے چلے اور شیطان اور آسمان کی خبروں کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا اور ان پر شہاب ثاقب مارے جانے لگے تو شیطان اپنی قوم میں واپس آئے تو انھیں پوچھنے لگے کہ تمھیں کیا ہے؟

تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کوئی چیز حائل کر دی گئی ہے اور ہمیں شہاب ثاقب مارے جاتے ہیں تو قوم کہنے لگی تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہونے کا کوئی سبب کوئی حادثہ ہے جو ہوا ہے تو زمین کے مشرق و مغرب میں پھیل جا‎ؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان ہوئی ہے ۔

تو وہ جن تہامہ کی طرف گئے تھے وہ سوق عکاظ ( عکاظ بازار ) جانے کی غرض سے نخلہ نامی جگہ پر اپنے صحابہ کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے تو جب جنوں نے قرآن سنا تو اس پر کان لگا لیے اور اسے غور سے سننے لگے تو کہنے لگے اللہ کی قسم یہی ہے جو تمھارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہوا ہے تو وہیں سے اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے اور انھیں کہنے لگے اے ہماری قوم ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم ایمان لا چکے ( اب ) ہم ہرگز کسی کو اپنے رب کا شریک نہیں بنائیں گے تو اللہ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل فرمائی :

" کہہ دو میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا ) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جنوں کا قول ہی وحی کیا گیا ۔

اسے بخاری نے ( 731) روایت کیا ہے ۔

قیامت کے دن ان کا حساب و کتاب :

قیامت کے دن جنوں کا حساب و کتاب بھی ہوگا۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کہا ہے کہ اور یقینا جنوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ پیش کیے جائیں گے

جنوں کی اذیت سے بچاؤ

ترمیم

جبکہ جن ہمیں دیکھتے ہیں اور ہم انھیں نہیں دیکھ سکتے تو اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ان کی اذیت سے بچنے کے لیے بہت سے طریقے سکھائے ہیں مثلا شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی پناہ میں آنا اور سورہ الفلق اور الناس پڑھنا۔

اور قرآن میں شیطان سے پناہ کے متعلق آیا ہے۔

اور دعا کریں اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے رب میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں [16]

اور اسی طرح گھر میں داخل ہونے سے اور کھانا کھانے سے اور پانی پینے سے اور جماع سے پہلے بسم اللہ پڑھنا شیطانوں کو گھر میں رات گزارنے اور کھانے پینے اور جماع میں شرکت سے روک دیتا ہے اور اسی طرح بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور لباس اتارنے سے قبل جن کو انسان کی شرمگاہ اور اسے تکلیف دینے سے منع کر دیتا ہے۔

جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

جب انسان بیت الخلا جاتا ہے تو بسم اللہ کہے یہ اس کی شرمگاہ اور جن کی آنکھوں کے درمیان پردہ ہو گا۔[17]

اور قوت ایمان اور قوت دین بھی شیطان کی اذیت سے رکاوٹ ہیں بلکہ اگر وہ معرکہ کریں تو صاحب ایمان کامیاب ہو گا جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود سے بیان کیا جاتا ہے کہ :

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک آدمی جن سے ملا اور اس سے مقابلہ کیا تو انسان نے جن کو بچھاڑ دیا تو انسان کہنے لگا کیا بات ہے میں تجھے دبلا پتلا اور کمزور دیکھ رہا ہوں اور یہ تیرے دونوں بازو ایسے ہیں جیسے کتے کے ہوں کیا سب جن اسی طرح کے ہوتے ہیں یا ان میں سے تو ہی ایسا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں اللہ کی قسم میں تو ان میں سے کچھ اچھی پسلی والا ہوں لیکن میرے ساتھ دوبارہ مقابلہ کر اگر تو تو نے مجھے بچھاڑ دیا تو میں تجھے ایک نفع مند چیز سکھاؤں گا تو کہنے لگا ٹھیک ہے کہ تو آیۃ الکرسی {اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم ۔۔۔۔۔۔۔} پڑھا کر تو جس گھر میں بھی پڑھے گا وہاں سے شیطان اس طرح نکلے گا کہ گدھے کی طرح اس کی ہوا خارج ہو گی تو پھر وہ صبح تک اس گھر میں نہیں آئے گا ۔

ابو محمد کہتے ہیں کہ الضئیل نحیف کو اور الشحیت کمزور اور الضلیع جس کی پسلی ٹھیک ہو اور الخجج ہوا کو کہتے ہیں ۔

تو جنوں اور ان کی خلقت اور طبیعت کے متعلق مختصر سا بیان تھا اور اللہ ہی بہتر حفاظت کرنے والا اور وہ ارحم الراحمین ہے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب (الجن والشیاطین ) تالیف : عمر

واللہ اعلم .

جنات سے جائز کام لیا جا سکتا ہے۔ شریعت میں ان سے جائز کام کروانے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ شریعت کے خلاف کام لینا حرام ہے۔ دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنا، کسی کے مال کو غصب کرنا، کسی کو تنگ کرنا، دوسروں کے حقوق غصب کرنا، ایسے کاموں میں جنات سے مدد لینا جائز نہیں ہے، بلکہ حرام ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. عبدالقادر شیخ (13 دسمبر 2012)۔ ’’جنات کا وجود قرآن پاک کی روشنی میں‘‘۔ express.pk۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 مئی 2017 
  2. الذاریات: 56
  3. الانعام :130
  4. الاعراف 27
  5. ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ رحمٰن آیت 15، صفحات 256 تا 257، مطبوعہ ترجمان القرآن لاہور۔
  6. ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر
  7. الحجر :65
  8. الرحمن :15
  9. مسلم: 5314
  10. ا طحاوی: مشکل الآثار ، 4/95۔ طبرانی کبیر22/114 شیخ البانی مشکاۃ 206 نمبر 4148
  11. مسلم : 2814۔ امام نووی شرح مسلم (17\ 175)
  12. النمل 39 – 40
  13. مسلم : 450
  14. بخاری:3571
  15. بخاری :142۔ مسلم : 375
  16. سورۃ المؤمنون 97 - 98
  17. صحیح ترمذی (551) اور یہ صحیح الجامع میں (3611) ہے