سالم مولیٰ ابی حذیفہ مسجد قباء کے امام تھے، مہاجرین اولین اکثر ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔ انھیں سالم بن معقل بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا شمار فضلاء الموالی، اخیار الصحابہ اور کبار الاصحابہ میں کیا جاتا ہے۔قراء صحابہ میں شمار تھے۔عہد نبوی کے تمام غزوات میں شرکت کی اور جنگ یمامہ 12ھ عہد صدیقی میں شہادت نوش کی۔[1] [2]

سالم مولی ابی حذیفہ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 630ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرہ شہداء یمامہ   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ فاطمہ بنت الولید بن عتبہ
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں تمام غزوات
جنگ یمامہ

نام و نسب

ترمیم

سالم نام ، ابو عبد اللہ کنیت ، والد کے نام میں اختلاف ہے ، بعض عبید بن ربیعہ اور بعض مغفل لکھتے ہیں، یہ ایرانی الاصل ہیں ، اصطخر ان کا آبائی مسکن تھا، ثبیہ بنت تعار انصاریہ کی غلامی میں مدینہ پہنچے ، انھوں نے آزاد کر دیا، تو ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللّٰہ عنہ نے ان کو اپنا متبنیٰ کر لیا، اس لحاظ سے ان میں انصار و مہاجر کی دونوں حیثیتیں مجتمع ہیں۔[3] وہ عموما سالم بن حذیفہ کے نام سے مشہور تھے ، ابو حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ بھی ان کو اپنے لڑکے کی طرح سمجھتے تھے اور اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولید سے بیاہ دیا تھا،لیکن جب قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی " ادعوھم لابائھم" یعنی لوگوں کو اپنے نسبی آباء کے انتساب سے پکارا کرو تو سالم بھی ابن کی بجائے مولی ابی حذیفہ کے لقب سے مشہور ہوئے۔[4]سالم رضی اللہ عنہ جوان ہوئے اور قرآن نے خود ساختہ ابوت(باپ) ونبوت (نبی) کے تعلق کو کالعدم کر دیا تو حضرت ابو حذیفہؓ کو ان کا زنان خانہ میں آنا جانا ناگوار گذرنے لگا ، چنانچہ ان کی بیوی سہلہ بنت سہیلؓ نے بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا‘ یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم سالم کو ہم اپنا لڑکا سمجھتے تھے اور وہ ہمیشہ گھر میں آتا جاتا تھا، لیکن اب ابو حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کو ناگورا گذرتا ہے، ارشاد ہوا کہ اس کو دودھ پلا دو تو وہ تمھارا محرم ہو جائے گا ، غرض اس طرح وہ ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے رضاعی فرزند ہو گئے لیکن ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سالمؓ کے لیے مخصوص اجازت تھی، ورنہ جوانی کی حالت میں رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ [5] [6] ،[7]

اسلام و ہجرت

ترمیم

سالم مکہ میں ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسکن گزین تھے، دعوت اسلام کا غلغلہ بلند ہوا تو انھوں نے ابتدا ہی میں لبیک کہا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مواخات کرا دی۔[8] ہجرت کے موقع میں حضرت ابو حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کے ہمراہ تھے، مدینہ پہنچ کر عباد بن بشر رضی اللہ عنہ کے مہمان ہوئے اور معاذ بن ماعص رضی اللّٰہ عنہ انصاری سے مواخات ہوئی۔[9]

غزوات

ترمیم

غزوۂ بدر، غزوہ احد ، غزوہ خندق اور عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام جنگوں میں معرکہ آرا تھے، عہد صدیقی میں جنگ یمامہ کی مہم پر بھیجے گئے ، مہاجرین کا علم ان کے ہاتھ میں تھا، ایک شخص نے اس پر نکتہ چینی کی اور کہا "ہم کو تمھاری طرف سے اندیشہ ہے، اس لیے ہم کسی دوسرے کو علمبردار بنائیں گے ، بولے ، اگر میں بزدلی دکھاؤں تو میں سب سے زیادہ بدبخت حاملِ قرآن ہوں، یہ کہہ کر نہایت جوش کے ساتھ حملہ آور ہوئے اور درحقیقت انھوں نے اپنے کو بہترین حاملِ قرآن ثابت کیا، اثنائے جنگ میں داہنا ہاتھ قلم ہوا تو بائیں ہاتھ نے قائم مقامی کی، وہ بھی شہید ہوا تو دونوں بازوؤں نے حلقہ میں لے کر لوائے توحید کو سینہ سے چمٹا دیا ، زبان پر یہ فقرہ جاری تھا "وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ ،":[3]محمد صرف ایک رسول ہیں اور کتنے انبیا ایسے ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے جہاد کیا ہے۔[10]،[6][11]

شہادت

ترمیم

زخموں سے چور ہوکر گرے تو پوچھا، ابوحذیفہؓ نے کیا کیا؟ لوگوں نے کہا "شہید ہوئے" بولے ،اس شخص نے کیا کیا جس نے مجھ سے اندیشہ ظاہر کیا تھا؟ جواب دیا گیا کہ وہ بھی شہید ہوئے، فرمایا، مجھے ان دونوں کے درمیان دفن کرنا۔ [12] ابن سعد کی روایت ہے کہ جنگ یمامہ 12ھ کے موقع پر جب مسلمانوں کے پاؤں پیچھے پڑنے لگے تو سالم نے کہا افسوس! رسول اللہ کے ساتھ تو ہمارا یہ حال نہ تھا، وہ اپنے لیے ایک گڑھا کھود کر اس میں کھڑے ہو گئے اور علم سنبھالے ہوئے آخر لمحہ حیات تک جانبازانہ شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے، اختتام جنگ کے بعد دیکھا گیا تو اس شہید ملت کا سر اپنے منہ بولے باپ ابوحذیفہ کے پاؤں پر تھا۔[13] روایت ہے عبد اللہ ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ جب پہلے مہاجر مدینہ میں آئے تو ان کی امامت ابو حذیفہ کے غلام سالم کرتے تھے حالانکہ ان میں ابن عمر اور ابو سلمہ بن عبد الاسد بھی ہوتے تھے۔[14] حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قرآن چار شخصوں سے سیکھو، ابن مسعود،ابی ابن کعب،معاذ ابن جبل، سالم مولیٰ ابی حذیفہ[15]

فضل و کمال

ترمیم

حضرت سالم رضی اللّٰہ عنہ ان بزرگوں میں تھے جو طبقہ صحابہ ؓ میں فنِ قرأت کے امام سمجھے جاتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ قرآن چار آدمیوں سے حاصل کرو یعنی ابن مسعودؓ ،سالم ؓمولی ابی حذیفہؓ ،ابی بن کعبؓ اور معاذؓ بن جبل سے [16] خدائے پاک نے خوش گلو اس قدر بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک عام محویت طاری ہو جاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سننے لگتے ،ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی، آپ نے توقف کی وجہ پوچھی تو بولیں کہ ایک قاری تلاوت کر رہا تھا اس کے سننے میں دیر ہو گئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ آنحضرت خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے، دیکھا تو سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ ہیں، آپ نے خوش ہوکر فرمایا خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمھارے جیسے شخص کو میری امت میں بنایا۔ [17] حضرت سالم ؓ اپنی خوش الحانی و حفظِ قرآن کے باعث صحابہ کرام ؓ میں نہایت عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت کی تشریف آوری سے پہلے جس قدر مہاجرین مدینہ پہنچے تھے، حضرت سالمؓ مسجد قبا میں ان کی امامت کرتے تھے۔ [18] وہ مسجد قباء کے امام تھے ، مہاجرین اولین جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، اکثر ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے، [19] غرض قرآنِ کریم کی برکت اور علم و فضل نے ان کو غیر معمولی عظمت و شرف کا مالک بنادیا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کی بے حد تعریف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دمِ واپسی کے وقت انھوں نے منصب خلافت کے متعلق وصیت فرمائی تو کہا، اگر سالم موجود ہوتے تو میں اس مسئلہ کو مجلس شوریٰ میں پیش ہونے نہ دیتا، یعنی وہ ان کو اپنا جانشین بناتے۔ [20]

اخلاق

ترمیم

حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کے قبائے فضل پر محاسنِ اخلاق کا طغرا نہایت خوشنما ہے، گذشتہ واقعات سے ان کی استقامت ، و فاشعاری و پارسائی کا اندازہ ہوا ہوگا، اہلِ حاجت کے لیے دستِ کرم کشادہ تھا ؛چونکہ کوئی اولاد نہ تھی اس لیے انھوں نے اپنے متروکہ مال اسباب میں سے ایک ایک ثلث مختلف اسلامی ضروریات اور غلاموں کی گلو خلاصی کے لیے اور ایک ثلث اپنے سابق آقاؤں کے لیے وصیت فرمائی تھی، حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ عنہ نے ان کی سابق مالکہ حضرت ثبیتہ بنت یعارؓ کے پاس ان کا حصہ بھیجا تو انھوں نے لینے سے انکار کیا اور بولیں کہ میں نے بغیر امید صلہ آزاد کیا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اس حصہ کو بیت المال میں داخل فرمادیا۔ [21]

حوالہ جات

ترمیم
  1. اصحاب بدر،صفحہ 90،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  2. أبو نعيم الأصبهاني (1998)۔ معرفة الصحابة۔ الثالث (الأولى ایڈیشن)۔ دار الوطن۔ صفحہ: 1361 
  3. ^ ا ب اسد الغابہ: 2/245
  4. ابوداؤ کتاب النکاح اب فی سن حرم
  5. (ابوداؤد کتاب النکاح باب فی من حرم)
  6. ^ ا ب سير أعلام النبلاء » الصحابة رضوان الله عليهم » سالم مولى أبي حذيفة آرکائیو شدہ 2017-12-04 بذریعہ وے بیک مشین
  7. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَالِمُ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ (1) آرکائیو شدہ 2017-12-10 بذریعہ وے بیک مشین
  8. طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :61
  9. (ابوداؤد کتاب انکاح باب فی من حرم)
  10. الطبقات الكبرى لابن سعد - سَالِمُ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ (2) آرکائیو شدہ 2017-12-10 بذریعہ وے بیک مشین
  11. أُسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير - سالم مولى أبي حذيفة آرکائیو شدہ 2017-12-16 بذریعہ وے بیک مشین
  12. (اسعد الغابہ جلد 2)
  13. طبقات ابن سعد قسم اول جز 2 :61
  14. (صحیح البخاری مناقب صحابہ )
  15. (جامع صغیر سیوطی)
  16. (صحیح بخاری باب فضائل صحابہ)
  17. (اصابہ تذکرہ سالم)
  18. (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب امامۃ العبد والمولی)
  19. (صحیح بخاری کتاب الاحکام)
  20. (اسدالغابہ :2/246)
  21. (استیعاب تذکرہ سالم ؓ مولیٰ ابی حذیفہؓ)