ام سلمہ

محمد کی کی بیوی تھیں

ام المومنین ہند بنت ابی امیہ (عربی: هند بنت أبي أمية) (پیدائش: 602ء — وفات: 683ء)، ام سلمہ ان کی کنیت اور اسی سے مشہور ہیں، آپ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔

ام سلمہ
(عربی میں: أم سلمة هند بنت أبي أمية ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 596ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 681ء (84–85 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر ابو سلمہ عبد اللہ ابن عبد الاسد (–625)[1]
محمد بن عبداللہ (629–632)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد زینب بنت ابی سلمہ ،  عمر بن ابی سلمه ،  سلمہ بن ابی سلمہ ،  درہ بنت ابی سلمہ ،  ام كلثوم بنت ابی سلمہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابو امیہ ابن المغیرہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خیبر   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام و نسب

ہند نام، ام سلمہ کنیت، قریش کے خاندان مخزوم سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے ہند بنت ابی امیہ سہیل بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم، والدہ بنو فراس سے تھیں اور ان کا سلسلہ نسب یہ ہے، عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ بن مالک بن جذیمہ بن علقمہ بن جذل الطعان ابن فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ، ابو امیہ (ام سلمہ کے والد) مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض تھے، سفر میں جاتے تو تمام قافلہ والوں کی کفالت خود کرتے تھے اسی لیے زاد الراکب کے لقب سے مشہور تھے۔[2] ام سلمہ نے انہی کی آغوش تربیت میں نہایت ناز و نعمت سے پرورش پائی۔

حلیہ

اصابہ میں ہے "یعنی حضرت ام سلمہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا نہایت حسین تھیں۔"

ابن سعد[3] نے روایت کی ہے کہ جب عائشہؓ کو ان کے حسن کا حال معلوم ہوا تو سخت پریشان ہوئیں۔[4]

ام سلمہؓ کے بال نہایت گھنے تھے۔[5]

نکاح

عبد اللہ بن عبد الاسد سے جو زیادہ تر ابو سلمہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو ام سلمہ کے چچا زاد بھائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رضاعی بھائی تھے، نکاح ہوا۔

اسلام

آغاز نبوت میں اپنے شوہر کے ساتھ ایمان لائیں۔

ہجرت حبشہ

اور انھی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی، حبشہ میں کچھ زمانہ تک قیام کر کے مکہ واپس آئیں اور یہاں سے مدینہ ہجرت کی، ہجرت میں ان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اہل سیر کے نزدیک وہ پہلی عورت ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔

ہجرت مدینہ

ہجرت کا واقعہ نہایت عبرت انگیز ہے، ام سلمہ اپنے شوہر کے ہمراہ ہجرت کرنا چاہتی تھیں (ان کا بچہ سلمہ بھی ساتھ تھا) لیکن (ام سلمہ کے) قبیلہ نے مزاحمت کی تھی، اس لیے ابو سلمہ ان کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے اور یہ اپنے گھر واپس آ گئیں تھیں (ادھر سلمہ کو ابو سلمہ کے خاندان والے ام سلمہ سے چھین لے گئے) اس لیے ام سلمہ کو اور بھی تکلیف تھی، چنانچہ روزانہ گھبرا کر گھر سے نکل جاتیں اور ابطح میں بیٹھ کر رویا کرتیں۔ سات آٹھ دن تک یہی حالت رہی اور خاندان کے لوگوں کو احساس تک نہ ہوا۔ ایک دن ابطح سے ان کے خاندان کا ایک شخص نکلا اور ام شلمہ کو روتے دیکھا تو اس کا دل بھر آیا گھر آکر لوگوں سے کہا کہ" اس غریب پر ظلم کیوں کرتے ہو، اس کو جانے دو اور اس کا بچہ اس کے حوالے کردو،" روانگی کی اجازت ملی تو بچے کو گود میں لے کر اونٹ پر سوار ہو گئیں اور مدینہ کا راستہ لیا، چونکہ وہ بالکل تنہا تھیں، یعنی کوئی مرد ساتھ نہ تھا، تنعیم کے مقام میں عثمان بن طلحہ (کلید بردار کعبہ) کی نظر پڑی، پوچھا "کدھر کا قصد ہے؟" کہا "مدینے کا" پوچھا کوئی ساتھ بھی ہے، کہا "خدا اور یہ بچہ،" عثمان نے کہا "یہ نہیں ہو سکتا تم تنہا کبھی نہیں جا سکتیں" یہ کہہ کر اونٹ کی مہار پکڑی اور مدینہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں جب کہیں ٹھہرتا تو اونٹ کو بٹھا کر کسی درخت کے نیچے چلا جاتا اور ام سلمہ اتر پڑتیں، روانگی کا وقت آتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر پرے ہٹ جاتا اور ام سلمہ سے کہتا کہ "سوار ہو جاؤ" ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شریف آدمی کبھی نہیں دیکھا، غرض مختلف منزلوں پر قیام کرتا ہوا۔ مدینہ لایا، قبا کی آبادی پر نظر پڑی تو بولا "اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ، وہ یہیں مقیم ہیں" یہ ادھر روانہ ہوئیں اور عثمان نے مکہ کا راستہ لیا۔[6] قبا پہنچیں تو لوگ ان کا حال پوچھتے تھے اور جب یہ اپنے باپ کا نام بتاتیں تو ان کو یقین نہیں آتا تھا یہ حیرت ان کے تنہا سفر کرنے کی بہادری اور ہمت پر تھی، شرفا کی عورتیں اس طرح باہر نکلنے کی جرأت نہیں کرتی تھیں۔ اور ام سلمہ مجبوراً خاموش ہوتی تھیں، لیکن جب کچھ لوگ حج کے ارادہ سے مکہ روانہ ہوئے اور انھوں نے اپنے گھر رقعہ بھجوایا تو اس وقت لوگوں کو یقین ہوا کہ وہ واقعی ابو امیہ کی بیٹی ہیں، ابو امیہ قریش کے چونکہ نہایت مشہور اور معزز شخص تھے، اس لیے ام سلمہ بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔[7]

نکاح ثانی اور خانگی حالات

کچھ زمانہ تک شوہر کا ساتھ رہا، ابو سلمہ بڑے شہ سوار تھے، بدر اور احد میں شریک ہوئے، غزوہ احد میں چند زخم کھائے، جن کے صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے، جمادی الثانی میں ان کا زخم پھٹا اور اسی صدمہ سے وفات پائی۔[8] ام سلمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پہنچیں اور وفات کی خبر سنائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود ان کے مکان پر تشریف لائے، گھر میں کہرام مچا تھا، ام سلمہ کہتی تھیں، "ہائے غربت میں یہ کیسی موت ہوئی" آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا "صبر کرو، ان کی مغفرت کی دعا مانگو اور یہ کہو کہ خداوندا! ان سے بہتر ان کا جانشین عطا کر" اس کے بعد ابو سلمہ کی لاش پر تشریف لائے اور جنازہ کی نماز نہایت اہتمام کے ساتھ پڑھائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نو تکبیریں کہیں، لوگوں نے نماز کے بعد پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کو سہو تو نہیں ہوا؟ فرمایا یہ ہزار تکبیروں کے مستحق تھے، وفات کے وقت ابو سلمہ کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود دست مبارک سے آنکھیں بند کیں اور ان کی مغفرت کی دعا مانگی۔

ابو سلمہ کی وفات کے وقت ام سلمہ حاملہ تھیں، وضع حمل کے بعد عدت گذر گئی تو ابوبکر صدیق نے نکاح کا پیغام دیا، لیکن ام سلمہ نے انکار کر دیا، ان کے بعد عمر فاروق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام لے کر پہنچے، ام سلمہ نے کہا مجھے چند عذر ہیں، میں سخت غیور ہوں، صاحب عیال ہوں، میرا سن زیادہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان زخمتوں کو گوارا فرمایا، ام سلمہ کو اب عذر کیا ہو سکتا تھا؟

اپنے لڑکے سے (جن کا نام عمر تھا) کہا اٹھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے میرا نکاح کراؤ۔[9] شوال 4ھ کی اخیر تاریخوں میں یہ تقریب انجام پائی، ام سلمہ کو ابو سلمہ کی موت سے جو شدید صدمہ ہوا تھا، خداوند تعالی نے اس کو ابدی مسرت میں تبدیل کر دیا۔

سنن ابن ماجہ میں ہے۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں: "جب ابو سلمہ نے وفات پائی تو میں نے وہ حدیث یاد کی جس کو وہ مجھ سے بیان کیا کرتے تھے تو میں نے دعا شروع کی اور جب میں یہ کہنا چاہتی کہ خداوندا! مجھے ابو سلمہ سے بہتر کون مل سکتا ہے لیکن میں نے دعا کو پڑھنا شروع کیا تو ابو سلمہ کے جانشین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوئے۔"

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو دو چکیاں، گھڑا اور چمڑے کا تکیہ جس میں خرمے کی چھال بھری تھی، عنایت فرمایا، یہی سامان دیگر بیبیوں کو بھی عنایت ہوا تھا۔[10]

بہت حیادار تھیں، ابتدا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکان پر تشریف لاتے تو ام سلمہ فرط غیرت سے لڑکی (زینب) کو گود میں بٹھا لیتیں، آپ یہ دیکھ کر واپس لوٹ جاتے، عمار بن یاسر کو جو ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور لڑکی کو چھین لے گئے۔[11]

لیکن بعد میں یہ بات ختم ہو گئی اور جس طرح دوسری بیبیاں رہتی تھیں وہ بھی رہنے لگیں، نکاح سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عائشہ سے ان کا ذکر کیا تو عائشہ کو بڑا رشک ہوا، طبقات ابن سعد میں ان سے جو روایت منقول ہے اس میں یہ فقرہ بھی ہے "یعنی مجھ کو سخت غم ہوا۔"[12]

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان سے بے حد محبت تھی، یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر جب تمام ازواج مطہرات کو (سوائے عائشہ کے) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں کچھ عرض کرنا تھا، تو انھوں نے ام سلمہ کو ہی اپنا سفیر بنا کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا، صحیح بخاری میں ہے کہ ازواج مطہرات کے دو گروہ تھے، ایک میں عائشہ، حفصہ، صفیہ، سودہ شامل تھیں، دوسرے میں ام سلمہ اور باقی ازواج مطہرات تھیں۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عائشہ کو زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ اس لیے لوگ انھی کی باری میں ہدیہ بھیجتے تھے، ام سلمہ کی جماعت نے ان سے کہا، عائشہ کی طرح ہم بھی سب کی بھلائی کی خواہاں ہیں، اس بنا پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس کے بھی مکان میں ہوں۔ لوگوں کو ہدیہ بھیجنا چاہیے، ام سلمہ نے آپ سے یہ شکایت کی تو آپ نے دو مرتبہ اعراض فرمایا، تیسری مرتبہ کہا "ام سلمہ! عائشہ کے معاملے میں مجھے اذیت نہ پہنچاؤ، کیونکہ ان کے سوا تم میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہے، جس کے لحاف میں میرے پاس وحی آئی ہو۔"[13] ام سلمہ نے کہا "میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اذیت پہنچانے سے پناہ مانگتی ہوں۔"

ام سلمہ کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شب باش ہوتے تو ان کا بچھونا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جا نماز کے سامنے بچھتا تھا۔ (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ سامنے ہوتی تھیں۔)[14] آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خیال کا بہت خیال رکھتی تھیں، سفینہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشہور غلام ہیں، دراصل ام سلمہ کے غلام تھے، ان کو آزاد کیا تو اس شرط پر کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زندہ ہیں تم پر ان کی خدمت لازمی ہوگی۔[15]

عام حالات

ام سلمہ کے مشہور واقعات زندگی یہ ہیں، غزوہ خندق میں اگرچہ وہ شریک نہ تھیں، تاہم اس قدر قریب تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گفتگو اس طرح سنتی تھیں فرماتی ہیں کہ مجھے وہ وقت خود یاد ہے کہ جب سینۂ مبارک غبار سے اٹا ہوا تھا اور آپ لوگوں کو اینٹیں اٹھا اٹھا کر دیتے اور اشعار پڑھ رہے تھے کہ دفعۃً عمار بن یاسر پر نظر پڑی فرمایا "(افسوس) ابن سمیہ! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ تو ان کو جنت کی طرف بلائے گا وہ گروہ جہنم کی طرف بلانے والا ہوگا۔[16] محاصرہ بنو قریظہ 5ھ میں یہود سے گفتگو کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو لبابہ کو بھیجا تھا، اثنائے مشورہ میں ابو لبابہ نے ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ تم لوگ قتل ہو جاؤ گے، لیکن بعد میں اس کو افشائے راز سمجھ کر اس قدر نادم ہوئے کہ مسجد کے ستون سے اپنے آپکو باندھ لیا، چند دنوں تک یہی حالت رہی پھر توبہ قبول ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ام سلمہ کے مکان میں تشریف فرما تھے کہ صبح کو مسکراتے ہوئے اٹھے تو بولیں "خدا آپ کو ہمیشہ ہنسائے، اس وقت ہنسنے کا کیا سبب ہے؟" فرمایا "ابو لبابہ کی توبہ قبول ہو گئی" عرض کی "تو کیا میں ان کو یہ مژدہ سنا دوں" فرمایا "ہاں اگر چاہو" ام سلمہ اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑی ہوئیں اور پکار کر کہا "ابو لبابہ مبارک ہو تمھاری توبہ قبول ہو گئی" اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ تمام مدینہ امنڈ آیا۔ [17] اسی سنہ میں آیت حجاب نازل ہوئی اس سے پیشتر ازواج مطہرات بعض دور کے اعزہ و اقارب کے سامنے آیا کرتی تھیں، اب خاص خاص اعزہ کے سوا سب سے پردہ کرنے کا حکم ہوا۔ عبد اللہ بن ام مکتوم قبیلہ قریش کے ایک معزز صحابی اور بارگاہ نبوی کے مؤذن تھے اور چونکہ نابینا تھے، اس لیے ازواج مطہرات کے حجروں میں آیا کرتے تھے، ایک دن آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ام سلمہ اور میمونہ سے فرمایا، ان سے فرمایا، "ان سے پردہ کرو" بولیں "وہ تو نابینا ہیں" فرمایا "تم تو نابینا نہیں ہو، تم تو انھیں دیکھتی ہو۔"[18] صلح حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھیں، صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں، لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا یہاں تک کہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، تین دفعہ بار بار کہنے پر بھی ایک شخص بھی آمادہ نہ ہوا،{{چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اس لیے تمام لوگ رنجیدہ اور غصہ سے بیتاب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف لے گئے اور ام سلمہ سے شکایت کی، انھوں نے عرض کی "آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ باہر نکل کر خود قربانی کریں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوائیں" آپ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے اب جب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اس فیصلہ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی تو سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا، ہجوم کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتا تھا اور عجلت اس قدر تھی کہ ہر شخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا۔[19] ام سلمہ کا یہ خیال علم النفس کے ایک بڑے مسئلہ کو حل کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کی فطرت شناسی میں ان کو کس درجہ کمال حاصل تھا، جوینی فرمایا کرتے تھے کہ صنف نازک کی پوری تاریخ اصابت رائے کی ایسی عظیم الشان مثال نہیں پیش کر سکتی۔[20] غزوہ خیبر میں شریک تھیں، مرحب کے دانتوں پر جب حضرت علی کی تلوار پڑی تو کرکراہٹ کی آواز ان کے کانوں میں آئی تھی۔[21]

9ھ میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا، عمر نے حفصہ کو تنبیہ کی تو ام سلمہ کے پاس بھی آئے وہ ان کی عزیز ہوتی تھیں، ان سے بھی گفتگو کی، ام سلمہ نے جواب دیا:[22] "عمر تم ہر معاملہ میں دخل دینے لگے یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیتے ہو۔" چونکہ جواب نہایت خشک تھا، اس لیے عمر چپ ہو گئے اور اٹھ کر چلے آئے، رات کو یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ازواج کو طلاق دے دی صبح کو جب عمر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور تمام واقعہ بیان کیا جب ام سلمہ کا قول نقل کیا تو آپ مسکرائے، حجۃ الوداع میں جو 10ھ میں ہوا۔ اگرچہ ام سلمہ علیل تھیں، تاہم ساتھ آئیں، نبہا (غلام) اونٹ کی مہار تھامے تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب غلام کے پاس اس قدر مال موجود ہو کہ وہ اس کو ادا کر کے آزاد ہو سکتا ہو تو اس سے پردہ ضروری ہو جاتا ہے۔[23]

طواف کے متعلق فرمایا کہ جب نماز فجر ہو، تم اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرو چنانچہ ام سلمہ نے ایسا ہی کیا۔[24]

11ھ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم علیل ہوئے، مرض نے طول کھینچا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عائشہ کے مکان میں منتقل ہو گئے، ام سلمہ اکثر آپ کو دیکھنے کے لیے جایا کرتی تھیں، ایک دن طبیعت زیادہ علیل ہوئی تو ام سلمہ چیخ اٹھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع کیا کہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔[25] ایک دن مرض میں اشتداد ہوا تو ازواج نے دوا پلانی چاہی، چونکہ گوارا نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا، لیکن جب غشی طاری ہو گئی تو ام سلمہ اور اسماء بنت عمیس نے دوا پلا دی۔[26]بعض روایتوں میں ہے کہ ان دونوں نے اس کا مشورہ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں ایک روز ام سلمہ اور ام حبیبہ نے جو حبشہ ہو آئی تھیں، وہاں کے مسیحی عبادت گاہوں کا (جو غالباً کیتھولک گرجے ہوں گے) اور ان کے مجسموں اور تصویروں کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا۔ ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرتا ہے تو اس کے مقبرہ کو عبادت گاہ بنا لیتے ہیں اور اس کا بت بنا کر اس میں کھڑا کرتے ہیں، قیامت کے روز خدائے عزوجل کی نگاہ میں یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے۔[27] وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بی بی فاطمہ سے باتیں کی تھیں، عائشہ اسی وقت بے تابانہ پوچھنے لگیں، لیکن ام سلمہ نے توقف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد پوچھا۔[28]

61ھ میں حسین بن علی نے شہادت پائی، ام سلمہ نے خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے ہیں، سر اور ریش مبارک غبار آلود ہے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کیا حال ہے، ارشاد ہوا، "حسین کے مقتل سے واپس آ رہا ہوں" ام سلمہ بیدار ہوئیں تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔[29] اسی حالت میں زبان سے نکلا اہل عراق نے حسین کو قتل کیا، خدا ان کو قتل کرے اور حسین کو ذلیل کیا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے۔[30]

63ھ میں واقعہ حرہ کے بعد شامی لشکر مکہ گیا، جہاں ابن زبیر پناہ گزیں تھے، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک حدیث میں ایسے لشکر کا تذکرہ فرمایا تھا، بعض کو شبہ ہوا اور ام سلمہ سے دریافت کیا بولیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک شخص مکہ میں پناہ لے گا، اس کے مقابلہ میں جو لشکر آئے گا بیاباں میں وہیں دھنس جائے گا۔ ام سلمہ سے پوچھا جو لوگ جبراً شریک کیے گئے ہوں گے وہ بھی؟ فرمایا ہاں وہ بھی لیکن قیامت میں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھیں گے (ابو جعفر) فرماتے تھے کہ یہ واقعہ مدینہ کے میدان میں پیش آئے گا۔[31]

فضل و کمال

علمی حیثیت اگرچہ تمام ازواج بلند مرتبہ تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ کا ان میں کوئی جواب نہیں تھا، چنانچہ محمود بن لبید کہتے ہیں،[32] "آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج احادیث کا مخزن تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ کا ان میں کوئی حریف و مقابل نہ تھا۔"

مروان بن حکم ان سے مسائل دریافت کرتا اور علانیہ کہتا تھا، "آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں سے کیوں پوچھیں۔"[33]

ابو ہریرہ اور ابن عباس دریائے علم ہونے کے باوجود ان کے دریائے فیض سے مستغنی نہ تھے۔[34] تابعین کرام کا ایک بڑا گروہ ان کے آستانہ فضل پر سر جھکاتا تھا۔ قرآن اچھا پڑھتیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طرز پر پڑھ سکتی تھیں، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیونکر قرأت کرتے تھے؟ بولیں ایک ایک آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے اس کے بعد خود پڑھ کر بتلا دیا۔[35]

حدیث میں عائشہ کے سوا ان کا کوئی حریف نہ تھا، ان سے 378 روایتیں مروی ہیں۔ اس بنا پر وہ محدثین صحابہ کے تیسرے طبقہ میں شامل ہیں۔

حدیث سننے کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن بال گوندھوا رہی تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے زبان مبارک سے ایھا الناس (لوگو!) کا لفظ نکلا تو فوراً بال باندھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کھڑے ہو کر پورا خطبہ سنا،[36]

مجتہدہ تھیں، صاحبِ اصابہ نے ان کے تذکرہ میں لکھا ہے، "یعنی وہ کامل العقل اور صاحب الرائے تھیں۔"[37] ابن قیم نے لکھا ہے کہ "ان کے فتاویٰ اگر جمع کیے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔"[38] ان کے فتاوی کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ وہ عموماً متفق علیہ ہیں اور یہ ان کی دقیقہ رسی اور نقطہ سنجی کا کرشمہ ہے۔

ان کی نکتہ سنجی پر ذیل کے واقعات شاہد ہیں۔

عبد اللہ بن زبیر عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، مروان نے پوچھا آپ یہ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ بولے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی پڑھتے تھے، چونکہ انھوں نے یہ حدیث عائشہ کے سلسلہ سے سنی تھی، مروان نے ان کے پاس تصدیق کے لیے آدمی بھیجا، انھوں نے کہا مجھ کو ام سلمہ سے یہ حدیث پہنچی ہے۔ ام سلمہ کے پاس آدمی گیا اور ان کو یہ قول نقل کیا تو بولیں، "خدا عائشہ کی مغفرت کرے انھوں نے بات نہیں سمجھی،"[39]یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی ہے۔

ابو ہریرہ کا خیال تھا کہ رمضان میں جنابت کا غسل فوراً صبح اٹھ کر کرنا چاہیے، ورنہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ایک شخص نے جا کر ام سلمہ و عائشہ سے جا کر پوچھا دونوں نے کہا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنابت کی حالت میں صائم ہوتے تھے، ابو ہریرہ نے سنا تو رنگ فق ہو گیا، اس خیال سے رجوع کیا اور کہا کہ میں کیا کروں؟ فضل بن عباس نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ ام سلمہ اور عائشہ کو زیادہ علم ہے۔[40] اس کے بعد ابوہریرہ نے اپنا فتوی واپس لے لیا۔[41]

ایک مرتبہ چند صحابہ نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اندرونی زندگی کے متعلق کچھ ارشاد کیجیے، فرمایا "آپ کا ظاہر و باطن یکساں تھا۔" آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو آپ سے واقعہ بیان کیا، فرمایا تم نے بہت اچھا کیا،[42]

ام سلمہ جواب صاف دیتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ سائل کی تشفی ہو جائے، ایک دفعہ کسی شخص کو مسئلہ بتایا، وہ ان کے پاس سے اٹھ کر دوسری ازواج کے پاس گیا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا، واپس آ کے ام سلمہ کو یہ خبر سنائی تو بولیں، نعم واشفیک! ذرا ٹھہرو میں تملاری تشفی کرنا چاہتی ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے متعلق یہ حدیث سنی ہے۔[43]

ام سلمہ کو حدیث و فقہ کے علاوہ اسرار کا بھی علم تھا اور یہ وہ فن تھا جس کے حذیفہ بن یمان عالم خصوصی تھے۔ ایک مرتبہ عبد الرحمن بن عوف ان کے پاس آئے تو بولیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ بعض صحابی ایسے ہیں جن کو نہ میں اپنے انتقال کے بعد دیکھوں گا نہ وہ مجھ کو دیکھیں گے، عبد الرحمن گھبرا کر عمر کے پاس پہنچے اور ان سے یہ حدیث بیان کی، عمر، ام سلمہ کے پاس تشریف لائے اور کہا، "خدا کی قسم! سچ سچ کہنا کیا میں انہی میں ہوں۔" ام سلمہ نے کہا نہیں، لیکن تمھارے علاوہ میں کسی کو مستثنیٰ نہیں کروں گی،[44]

ام سلمہ سے جن لوگوں نے علم حدیث حاصل کیا ان کی ایک بڑی جماعت ہے ہم صرف چند ناموں پر اکتفا کرتے ہیں۔

عبد الرحمن بن ابی بکر، اسامہ بن زید، ہند بنت حارث فراسیہ، صفیہ بنت شیبہ، عمر، زینب (اولاد ام سلمہ)، مصعب بن عبد اللہ (برادر زادہ)، نبہان (غلام مکاتب)، عبد اللہ بن رافع، نافع، شعبہ، پسر شعبہ، ابو بکر، خیرہ والدۂ حسن بصری، سلیمان بن یسار، ابو عثمان نہدی، حمید، ابو سلمہ، سعید بن مسیب، ابو وائل، صفیہ بنت محصی، شعبی، عبد الرحمان، ابن حارث بن ہشام، عکرمہ، ابو بکر بن عبد الرحمان، عثمان بن عبد اللہ ابن موہب، عروہ بن زبیر، کریب مولیٰ ابن عباس، قبیصہ بن زویب، نافع مولیٰ ابن عمر یعلیٰ بن مالک۔

اخلاق و عادات

ام سلمہ نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایک ہار پہنا جس میں سونے کا کچھ حصہ شامل تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعراض کیا تو اس کو توڑ ڈالا۔[45] ہر مہینے میں تین دن (دو شنبہ، جمعرات اور جمعہ) روزہ رکھتی تھیں،[46] ثواب کی متلاشی رہتیں، ان کے پہلے شوہر کی اولاد ان کے ساتھ تھی اور وہ نہایت عمدگی سے ان کی پرورش کرتی تھیں، اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پوچھا کہ مجھ کو اس کا کچھ ثواب بھی ملے گا۔ اپ نے فرمایا "ہاں۔"[47]

اچھے کاموں میں شریک ہوتی تھیں، آیت تطہیر انہی کے گھر میں نازل ہوئی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فاطمہ زہرا اور علی کو بلا کر کمبل اوڑھایا اور کہا "خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ناپاکی کو دور کر اور انھیں پاک کر ام سلمہ نے یہ دعا سنی تو بولیں: یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوں ارشاد ہوا۔ تم اپنی جگہ پر ہو اور اچھی ہوں۔[48]

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پابند تھیں، نماز کے اوقات میں بعض امرا نے تغییر و تبدل کیا یعنی مستحب اوقات چھوڑ دیے تو ام سلمہ نے ان کو تنبیہ کی اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر جلد پڑھا کرتے تھے اور تم عصر جلد پڑھتے ہو۔[49]

ایک دن ان کے بھتیجے نے دو رکعت نماز پڑھی، چونکہ سجدہ گاہ غبار آلود تھی، وہ سجدہ کرتے وقت مٹی جھاڑتے تھے، ام سلمہ نے روکا کہ یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روش کے خلاف ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک غلام نے ایک دفعہ ایسا کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا، ترب وجہک اللہ! یعنی تیرا چہرہ خدا کی راہ میں غبار آلود ہو۔[50]

فیاض تھیں اور دوسروں کو بھی فیاضی کی طرف مائل کرتی تھیں۔ ایک دفعہ عبد الرحمن بن عوف نے آ کر کہا "اماں! میرے پاس اس قدر مال جمع ہو گیا ہے کہ اب بربادی کا خوف ہے، فرمایا بیٹا! اس کو خرچ کرو، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ بہت سے صحابہ ایسے ہیں کہ جو مجھ کو میری موت کے بعد پھر نہ دیکھیں گے![51]

ایک مرتبہ چند فقراء جن میں عورتیں بھی تھیں، ان کے گھر آئے اور نہایت الحاح سے سوال کیا، ام الحسن بیٹھی تھیں، انھوں نے ڈانٹا لیکن ام سلمہ نے کہا ہم کو اس کا حکم نہیں ہے۔ اس کے بعد لونڈی کو کہا کہ ان کو کچھ دے کر رخصت کرو۔ کچھ نہ ہو تو ایک ایک چھوہارا ان کے ہاتھ پر رکھ دو۔[52]

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کو جو محبت تھی اس کا یہ اثر تھا کہ آپ کے موئے مبارک تبرکاً رکھ چھوڑے تھے۔ جن کی وہ لوگوں کو زیارت کراتی تھیں۔[53] آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ ایک مرتبہ انھوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس کا کیا سبب ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں۔ تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی "ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات۔"[54]

ایک مرتبہ ام سلمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں، جبریل آئے اور باتیں کرتے رہے، ان کے جانے کے بعد آپ نے پوچھا۔ "ان کو جانتی ہو؟" بولیں دحیہ کلبی تھے، لیکن جب آپ نے اس واقعہ کو اور لوگوں سے بیان کیا تو اس وقت معلوم ہوا کہ وہ جبرئیل تھے۔[55] غالبا یہ نزول حجاب سے قبل کا واقعہ ہے۔

وفات

جس سال حرہ کا واقعہ ہوا (یعنی 63ھ) اسی سال 10 محرم کو ام سلمہ نے انتقال فرمایا اس وقت 84 برس عمر تھی، ابو ہریرہ نے نماز جنازہ پڑھی اور بقیع میں دفن کیا۔[56] اس زمانہ میں ولید بن عتبہ (ابو سفیان کا پوتا) مدینہ کا گورنر تھا، چونکہ ام سلمہ نے وصیت کی تھی کہ وہ میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھائے، اس لیے وہ جنگل کی طرف نکل گیا اور اپنے بجائے ابو ہریرہ کو بھیج دیا۔[57] یہ بات صحیح نہیں ہے ابوہریرہ ام امومنین کی وفات سے چار سال پہلے مر چکے تھے۔

اولاد

ام سلمہ کے پہلے شوہر سے جو اولاد ہوئی اس کے نام یہ ہیں، سلمہ، حبشہ میں پیدا ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا نکاح حمزہ کی لڑکی امامہ بنت حمزہ سے کیا تھا۔ عمر، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ام سلمہ کا نکاح انھوں نے ہی کیا تھا، علی المرتضیٰ کے زمانہ خلافت میں فارس و بحرین کے حاکم تھے، دُرّہ، ان کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے، ام حبیبہ نے جو ازواج مطہرات میں داخل تھیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ درہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے، اگر میں نے اس کو پرورش نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ کسی طرح میرے لیے حلال نہ تھی، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔[58] زینب کا پہلے برہ نام تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زینب رکھا۔[59]

مناقب

ایک مرتبہ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھی تھیں، حضرت جبرئیل آئے اور باتیں کرتے رہے، ان کے جانے کے بعد آپ نے پوچھا: اِن کوجانتی ہو؟ بولیں دحیہ کلبی تھے؛ لیکن جب آپ نے اس واقعہ کو اور لوگوں سے بیان کیا تواس وقت معلوم ہوا کہ وہ جبرئیل تھے۔[60]

حواشی

حوالہ جات

  1. ^ ا ب عنوان : Умм Салама бинт Абу Умаййа
  2. اصابہ ج 8 ص 240
  3. طبقات ابن سعد، ج 8، ص 66
  4. مگر یہ واقدی کی روایت ہے جو چنداں قابل اعتبار نہیں
  5. مسند احمد، ج 6، ص 389
  6. زرقانی ج 3 ص 272،273
  7. مسند احمد ج 6 ص 307
  8. زرقانی ج 3 ص 273
  9. سنن نسائی ص511
  10. مسند احمد ج 6 ص 295
  11. مسند احمد ج 6 ص 295
  12. طبقات ابن سعد ج 8 ص 24
  13. صحیح بخاری ج 1 ص 532
  14. مسند احمد ج 6 ص 322
  15. مسند احمد ج 6 ص 316
  16. مسند احمد ج 6 ص 289
  17. زرقانی ج 2 ص 153، ابن سعد ج 2 ق 1 ص 54
  18. مسند احمد ج 6 ص 296
  19. صحیح بخاری ج 6 ص 380
  20. زرقانی ج 3 ص 272
  21. استیعاب ج 2 ص 803
  22. صحیح بخاری ج 2 ص 730
  23. مسند احمد ج 6 ص 308 اور ص 289
  24. صحیح بخاری ج1 ص219، 220
  25. طبقات ج2 ق2 ص13
  26. صیح بخاری ج 2 ص 641 وطبقات ج 2 ق 2 ص 32
  27. صحیح بخاری وصحیح مسلم
  28. طبقات ج 2 ق 2 ص 40
  29. صحیح ترمذی ص 224
  30. مسند احمد ج 6 ص 98
  31. صحیح بخاری ج 2 ص 493، 494
  32. طبقات ابن سعد ج 6 ص 317
  33. مسند احمد ج 6 ص 317
  34. مسند احمد ج 6 ص 312
  35. مسند احمد ج 6 ص 300، 301
  36. مسند احمد ج 6 ص 301
  37. اصابہ ج 8 ص 241
  38. اعلام الموقین ج 1 ص 13
  39. مسند احمد ج 6 ص 299
  40. مسند احمد ج 6 ص 306، 307
  41. مسند احمد ج 6 ص 306
  42. مسند احمد ج 6 ص 309
  43. مسند احمد ج 6 ص 297
  44. مسند احمد ج 6 ص 307
  45. مسند احمد ج 6 ص 319، 323
  46. مسند احمد ج 6 ص 389
  47. صحیح بخاری ج 1 ص 1198
  48. صحیح ترمذی ص 530
  49. مسند احمد ج 6 ص 289
  50. مسند احمد ج 6 ص 301
  51. مسند احمد ج 6 ص 290
  52. استیعاب ج 2 ص 803
  53. مسند احمد ج 6 ص 296
  54. مسند احمد ج 6 ص 301
  55. صحیح مسلم ج 2 ص 241 مطبوعہ مصر
  56. زرقانی ج3 ص276
  57. طبری کبیر ج 3 ص 2443
  58. صحیح بخاری ج 2 ص 764
  59. زرقانی ج 3 ص 272
  60. (مسلم:ج 2 ص 241 مطبوعہ مصر)