ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی (ولادت:923ء – وفات:991ء) معروف بہ شیخ صدوق یا ابن بابویہ بارھویں شیعہ امام زمانہ حضرت مہدی علیہ السلام کی دعا کی برکت سے قم شہر میں 306ھ میں پیدا ہوئے۔[3][4][5] بنی بابویہ قم کے خاندانوں میں سے ایک ایسا خاندان ہے جس کی علمی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، جس کسی نے بھی تیسری اور چوتھی صدی کی علمی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اسے معلوم ہے کہ ایران کا شہر قم علم کا گہوارہ رہا ہے۔ اس سرزمین نے ایسے محدثین و مصلحین پیدا کیے ہیں اور اس کی فضاؤں سے رشد و ہدایت کے ایسے ایسے ستارے اور چاند سورج طلوع ہوئے ہیں کہ جن سے قم کی تاریخ اور اسلامی تہذیب ہمیشہ ہمیشہ درخشاں و تابندہ رہے گی۔

شیخ صدوق
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (فارسی میں: ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویه قمی ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 918ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قم   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 991ء (72–73 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رے   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ
بنی بویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد علی بن بابویہ   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ علی بن بابویہ   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص شیخ مفید ،  سید شریف رضی ،  سید شریف مرتضی ،  تلعکبری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شیعہ اثنا عشریہ ،  اسلام   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں من لا يحضره الفقيہ ،  ایون اخبار الرضا   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سنہ ولادت

ترمیم

ان کی ولادت قم میں 305ھ کے بعد ہوئی جو حسین ابن روح کی سفارت کا پہلا سال تھا، جیساکہ الکامل فی التاریخ سے ظاہر ہوتاہے چنانچہ انھوں نے سال 305ھ کے حادثات کے حوالے سے تحریر کیاہے کہ اس سال ماہ جمادی الاول میں ابو جعفر عثمان بن عسکری کی وفات ہوئی، یہ شیعہ کے رئیس اور سردار تھے اور امام منتظر علیہ الاسلام تک رسائی کا ذریعہ تھے انھوں نے اپنی رحلت کے وقت ابو القاسم حسین بن روح کو اپنا وصی بنایا۔

نشو و نما اور اساتذہ

ترمیم

شیخ صدوق کی پرورس علم ودانش کی آغوش میں وہوئی، ان کے پدربزرگوار انھیں علوم و معارف کی غذا کھلاتے رہے اور اپنے علوم و آداب کی ان پر بارشیں برساتے رہے۔ اپنی صفات و زہد و تقویٰ و ورع کی روشنیوں سے ان کے وجود کو جگمگاتے رہے۔ ان کے والد قمیین کے شیخ اور فقیہہ تھے۔ شیخ صدوق نے اپنے والد کی قربت قریب قریب بیس سال حاصل کی اور ان کے علوم و معارف سے فیضیاب ہوتے رہے۔ بہت زیادہ عرصہ نہیں گزراتھا کہ شیخ صدوق جوان ہو گئے اور حفظ و ذکاوت کی مثالی شخصیت بن کر ابھرے۔ شیوخ کی مجالس میں حاضری دیتے ان سے احادیث سنتے اور روایت کرتے اور بہت جلد لوگوں کی ان کی طرف توجہ ہونے لگے۔ آپ نے شیوخ قم جیساکہ محمد بن حسن بن احمد بن ولید اور حمزہ بن احمد بن جعفر بن محمد بن زید بن علی علیہ السلام سے بہت کچھ سنا اور کسب فیض کیا۔ شیخ صدوق نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ و ہ رجب 339ھ میں وطن سے نکلے اور مختلف شہروں کے شیوخ و علما سے استماع حدیث کرتے رہے۔ اس زمانے میں ایران پر آل زیاد اور آل بابویہ کی حکومت تھی اور یہ دونوں خاندان علم پرور تھے۔ اس لیے ان کے گرد بہت سے شعرا و علما جمع ہو گئے جن میں سے صاحب ابن عباد کا نام لیاجاسکتاہے جبکہ اسی دور میں ایران کے دیگر شہروں خراسان، اصفہان اور نیشاپور میں علمی مراکز قائم ہو گئے جو علما و فضلا سے پر تھے، طلبہ وہاں حصول علم کے لیے جاتے جبکہ حکمران اساتذہ و طلبہ کے لیے وظائف وغیرہ مقرر کرتے۔ جن اساتذہ سے شیخ صدوق نے کسب فیض کیا ان میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:

  1. شیخ صدوق کے والد ماجد علی بن بابویہ قمی
  2. محمد بن حسن ولید قمی
  3. احمد بن علی بن ابراهیم قمی
  4. علی بن محمد قزوینی
  5. جعفر بن محمد بن شاذان
  6. جعفر بن محمد بن قولویہ قمی
  7. علی بن احمد بن مہریار
  8. ابو الحسن خیوطی
  9. ابوجعفر محمد بن علی بن اسود
  10. ابوجعفر محمد بن یعقوب کلینی
  11. احمد بن زیاد بن جعفر ہمدانی

تصانیف

ترمیم

شیخ صدوق نے مختلف علوم و فنون پر تین سو سے زائد کتب تصنیف کیں۔ آپ کے زمانے میں ہی لوگ آپ کی کتب کی نقول تیار کروانے لگے تھے چنانچہ شریف نعمت نے آپ کی دو سو پنتالیس کتب نقل کروالیں مگر صد افسوس کہ اس علمی خزانے میں سے اب صرف چند کتب ہمارے پاس موجود ہیں، ان تصانیف سے شیخ صدوق کی عظمت و سچائی کی دلیل مہیا ہوتی ہے۔ نجاشی و شیخ طوسی نے اپنی کتاب رجال میں، علامہ حلی نے خلاصۃالاقوال میں ابن شہر آشوب نے معالم العلماء میں شیخ صدوق کی 199 کتب کا تذکرہ کیا ہے۔

آپ کے شاگرد

ترمیم

اگر ہم ان تمام لوگوں کے نام تلاش کرنا چاہیں جنھوں نے شیخ صدوق سے کسب علم کیا ہے تو بحث بہت طویل ہو جائے گی۔ ان کے مشہور تلامذہ کے سوا جن کے نام زبان زد عام و خلائق ہیں ان کی تعداد بیس کے قریب ہے۔

  1. شیخ مفید
  2. حسین بن عبید اللہ غضائری
  3. برادرش حسین بن علی بن بابویہ قمی
  4. ابو الحسن جعفر بن حسین حسکہ قمی (استاد شیخ طوسی)
  5. ابوجعفر محمد بن احمد بن عباس بن فاخر دوریستی (معاصر شیخ طوسی)
  6. برادر زادہ اش شیخ ثقة الدین حسن بن حسین بن علی بن موسی بن بابویہ
  7. حسن بن محمد قمی (مؤلف تاریخ قم)
  8. علی بن احمد بن عباس نجاشی (پدر نجاشی)
  9. سید ابوالبرکات علی بن حسن خوزی حسینی حلی
  10. ابو القاسم علی بن محمد بن علی خزاز
  11. ابو زکریا محمد بن سلیمان حمرانی
  12. احمد بن زیاد بن جعفر همدانی
  13. هارون بن موسی تلعکبری
  14. علم‌الهدی، سید مرتضی

شیخ صدوق کے خاندان کے علما

ترمیم

آپ کے خاندان کو علما مشائخ کے ہاں بہت مقام و مرتبہ حاصل ہے ا سلئے کہ اس خاندان میں بہت سے علما و محدثین اور فقیہان پیداہوئے جنھوں نے اپنی تالیفات اور مرویات سے دین اسلام کی خدمت کی اور علوم و آثار اہل بیت کی حفاظت کی۔ اس خاندان کے علما اعلام شیعہ کے لیے باعث افتخار اور آسمان علم کے درخشاں ستارے ہیں۔

وفات و مزار

ترمیم

شیخ صدوق کی وفات شہر رے میں 381ھ کوہوئی۔ ان کی قبر شہر رے میں سیدعبدالعظیم حسنی کی قبر کے قریب ایک قطعہ زمین پر واقع ہے، جو آپ کی قبر مبارک کی وجہ سے زیارت گاہ بن گئی ہےسلطان فتح علی قاچار نے 1238ھ میں ان کی قبر پر تعمیر جدید کروادی۔ شیخ صدوق کی قبر چندمزارات میں سے ایک ہے جہاں شیعہ حصول برکت کے لیے تمام اقطار و امصار سے پہنچتے ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://librarycatalog.usj.edu.lb/cgi-bin/koha/opac-authoritiesdetail.pl?authid=343394
  2. عنوان : Шейх Садук
  3. R.N. Frye، مدیر (1975)۔ The Cambridge history of Iran. (Repr. ایڈیشن)۔ London: Cambridge U.P.۔ صفحہ: 468۔ ISBN 978-0-521-20093-6 
  4. Encyclopædia Britannica. "Ibn Bābawayh, also spelled Ibn Babūyā، in full Abū Jaʿfar Muḥammad ibn Abū al-Ḥasan ʿAlī ibn Ḥusayn ibn Mūsā al-Qummī، also called aṣ-Ṣadūq (born c. 923, Khorāsān province, Iran—died 991, Rayy)، Islamic theologian, author of one of the "Four Books" that are the basic authorities for the doctrine of Twelver (Ithnā ʿAshāri) Shīʿah."
  5. Ludwig W. Adamec (2009)، Historical Dictionary of Islam، p.135. Scarecrow Press. آئی ایس بی این 0810861615۔

بیرونی ربط

ترمیم

کتاب اعتقادات از شیخ صدوق اردو ترجمہ صفحہ 7آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ bookstube.net (Error: unknown archive URL)