عمجہ زادہ کوپرولو حسین پاشا

کوپرولو خاندان سے تعلق رکھنے والا عثمانی وزیر اعظم

عمجہ زادہ حاجی حسین پاشا ( "بھتیجا کوپرولو حسین پاشا"؛ (البانوی: Hysein Pashë Kypriljoti)‏) (1644–1702) مصطفی دوم کے تحت، ستمبر 1697 سے لے کر ستمبر 1702 تک [2] :225–227 کوپرولو خاندان سے تعلق رکھنے والے ، عثمانی وزیر اعظم تھے۔عمجہ زادہ کوپرولو حسین پاشا،طریقت مولویہ کا رکن ہونے کے ناطے، سلطنت عثمانیہ کی مسلمان عوام سے بہت قریب تھے ۔ وہ عام لوگوں ، فوجیوں اور سرکاری ملازموں کی ضروریات سے واقف رہتے تھے۔

عمجہ زادہ کوپرولو حسین پاشا
 

عثمانی وزیر اعظم
مدت منصب
17 ستمبر 1697 – 4 ستمبر 1702
الماس محمد پاشا
دلتابان مصطفی پاشا
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1644ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوزلوک   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1702ء (57–58 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
سیلیوری   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن استنبول   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رشتے دار کوپرولو محمد پاشا (چچا)
کوپرولو فضل احمد پاشا (چچا زاد)
کوپرولو زادہ فضل مصطفی پاشا (چچا زاد)
خاندان کوپرولو خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ امیر البحر   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان خاندانِ کوپرولو

ابتدائی سال

ترمیم

عمجہ زادہ حسین 1644 میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام حسن آغا البانوی تھا، جو کوپرولو محمد پاشا کے بھائی تھے، یعنی محمد پاشا، حسین پاشا کے چچا تھے، اسی وجہ سے حسین کی کنیت "عمجہ زادہ (بھتیجا)" ہے۔ اس کے والد موجودہ بلغاریہ کے ترک گاؤں "کوزلوکا" میں زرعی جائداد رکھتے تھے ، نوجوان حسین نے اپنی جوانی وہاں ہی گزاری تھی۔اس نے 1683 میں ویانا کے محاصرے میں عثمانی فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی حیثیت سے حصہ لیا ، کیونکہ عثمانی سالار اعلیٰ وزیر اعظم میرزفونولو قرا مصطفی پاشا تھا ، جو اس کا قریبی رشتہ دار تھا۔ ویانا کی لڑائی میں عثمانیوں کی شکست اور بلغراد میں پسپائی کے بعد ، میرزفونولو قرا مصطفیٰ کو پھانسی دے دی گئی اورعمجہ زادہ حسین کو مجرم کماندار سے قریبی تعلقات کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔

1684 میں اسے جیل سے رہا کیا گیا ، لیکن صوبوں کے منتظم کی حیثیت سے بیلر بے کے عہدے پر پایۂ تخت سے دور بھیج دیا گیا۔ پہلے انھیں آبنائے درِ دانیال پر گیلی پولی کے قریب کارڈک کا گورنر مقرر کیا گیا۔ پھر انھیں وزیر کا درجہ دیا گیا اور سد البحر میں اسی طرح کی لیکن زیادہ پروقار نوکری دی گئی۔ 1691 میں کچھ عرصے کے لیے وہ عارضی گورنر (استنبول کا قائم مقام) مقرر ہوا اور درِ دانیال پر اپنی اصل ملازمت پر واپس آگیا۔ 1694 کو اسے کاپودان پاشا (عثمانی امیر البحر) مقرر کیا گیا اور میزو مورتو حسین پاشا کی مدد سے اس نے 1695 میں وینس سے خیوس کو واپس لینے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی کے بعد انھیں خیوس کا گورنر مقرر کیا گیا۔ 1696 میں انھیں دوبارہ استنبول کا قائم مقام مقرر کیا گیا لیکن جلد ہی بلغراد کی گورنری کے عہدے پر بھیج دیا گیا۔ اگست 1697 میں سلطان مصطفی دوم کی سربراہی میں عثمانی فوج آسٹریا کے خلاف حملہ کرنے کے لیے بلغراد آگئی۔جنگ کی منصوبہ بندی کے دوران ، عمجہ زادہ حسین پاشا نے تجویز پیش کی کہ عثمانی فوج کو جاکر وارظدین قلعہ کا محاصرہ کرنا چاہیے۔ تاہم ، دوسروں کا استدلال تھا کہ اسے ٹیمیسور کی طرف جانا چاہیے۔ دوسرے افراد کی تجویز کو قبول کر لیا گیا اور عثمانی فوج کوجنگ زینٹامیں شکست ہو گئی۔

اس کی بیٹی نے کاونوز احمد پاشا سے شادی کی ، جو 1703 میں مختصر وقت کے لیے وزیر اعظم بنا۔

مدت وزارت عظمیٰ

ترمیم

11 ستمبر 1697 کی جنگ زینٹا میں عثمانیوں کی عبرتناک شکست کے فورا بعد ، عمجہ زادہ کوپرولوحسین پاشاکو 17 ستمبر 1697 کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔ سلطان نے اس سے یہ وعدہ کیاتھا کہ وہ سلطنت میں سلطان کی مداخلت کے بغیرآزادانہ طور پر حکومت کرے گا ۔ امید کی جارہی تھی کہ وہ کارلوفچہ میں قیام امن کے لیے ہونے والے مذاکرات کے دوران ہیپس برگ بادشاہت ، پولستان-لتھوانی دولت مشترکہ ، جمہوریہ وینس اور روس کے پطرس اول پر مشتمل یورپی طاقتوں کےاتحاد، کے خلاف طویل جنگ کے خاتمے کے لیے بہترین ممکنہ شرائط طے کروانے کے لیے خاندانی صلاحیت کا مظاہرہ کریگا ۔ کئی ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ کارلوفچہ پر 26 جنوری 1699 کو دستخط ہوئے۔ عثمانیوں نے ، ہنگری کا تمام عثمانی صوبہ جس میں ٹرانسلوینیا بھی شامل تھا جو 1526 کے بعد فتح کیا گیا،ہنسبرگ بادشاہت کے حوالے کر دیا۔ پوڈولیا ،پولینڈ کوواپس کر دیا گیا اور بیشتر ڈالمٹیا اور موریہ (جنوبی یونان میں پیلوپونی جزیرہ نما) وینس کو دے دئے گئے۔ جنگ زینٹا میں پیشہ ور فوجیوںاور وسیع زمین کے بھاری نقصان کے بعد ، یہ بات عیاں ہو گئی کہ عثمانی فوجی نظام ، فوج اور ریاست کو برقرار رکھنے والے مالیاتی نظام اور نوکر شاہی کے نظام میں اصلاحات کرناپڑیں گی۔ یہ کام بنیادی طور پروزیر اعظم عمجہ زادہ کوپرولو حسین پاشا کے کندھوں پر پڑا۔

عمجہ زادہ حسین نے معاشی اور مالی اصلاحات کا آغاز کیا۔ تمباکو اور قہوہ پر عائد محصولات ، جو جنگ کے دوران فوج کو مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے چار گنا بڑھ گئے تھے ، کافی حد تک کم کردیے گئے اور اسی طرح ضروری اشیاءخوردونوش ،مثلا صابن اور کھانا پکانے والا تیل، پر عائد محصولات بھی کم کر دیے گئے ۔ جنگ کے دوران خصوصی محصول لگا ئے گئے تھے، جو لوگ یہ غیر معمولی محصولات نہیں اداکرسکتے تھے ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ۔ عمجہ زادہ حسین نے ان ظالمانہ ٹیکس شرائط کو ختم کر دیا اور ان افراد کو ٹیکس کی معافی دے دی جو ادائیگی نہیں کرسکتے تھے اور جن پربھاری جرمانے عائدتھے۔ روایتی ٹیکسوں کے نرخوں میں کمی کی گئی ۔ خانہ بدوش ترکمان قبیلوں سے تعلق رکھنے والے نئے کاشت کاروں کو عرفہ ، ملاطیہ ، انطالیہ اور قبرص جیسی جگہوں پر آباد کیا گیا جہاں کسانوں کی تعداد بہت کم سطح پر آگئی تھی۔ تباہ شدہ عثمانی دستکاری صنعتوں اور یورپ سے درآمدات کے متبادل کے طور پر ، ایک نیا صنعتی مرکز تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ [2] :225

اس کے بعد ، عمجہ زادہ حسین نے پیشہ ور فوج کے تنخواہوں کی فہرستوں کا جائزہ لیا۔ ینی چری ، جو معاہدہ کارلوفچہ سے پہلے 70،000 آدمیوں پر مشتمل تھی ،جن میں سے صرف 10،000اصل جنگجو تھے،کی تعداد کو کم کرکے 34000 کر دیا گیا؛جبکہ توپخانہ دستے کو 6000 سے 1250 تک کم کر دیا گیا۔ پیادہ دستوں میں نئی بھرتی ہوئی۔ اسی طرح ، صوبائی سپاہی دستے میں رشوت کا خاتمہ کیا گیا اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ان کی مناسب بحالی اور تربیت کی جائے۔ [2] :225

میزو مورتو حسین پاشا کی کمان میں بھی بحریہ کی بھی تنظیم نو کی گئی ، جو عمجہ زادہ حسین کا قریبی ساتھی تھا۔ اور ، باستانی جہازوں کی جگہ بادبانی جہازوں کے ایک نئے بیڑے نے لے لی۔ بحریہ کے افسران اور اہلکاروں کو بھی پوری طرح سے منظم کیا گیا تھا جس سے افسران کی مکمل درجہ بندی ہوئی ۔ نچلے درجے کے بحری ملازموں کو مستقل طور پر بیرکوں میں رکھا جاتا تھا۔ اچھی طرح سے تنخواہوں کی ادائیگی کی جاتی اور حتی کہ عثمانی بحریہ میں پہلی بار ان کی ریٹائرمنٹ کے بارے میں بھی سوچا گیا ۔ مرکزی حکومت اور محل کے محرروں(کاتب) کو دوبارہ منظم کیا گیا ، پرانے ناکارہ محرروں(کاتبوں) کو مستعفی کیا اور مکتب سے تربیت یافتہ نئے افراد کو متعارف کرایا گیا۔ [2] :226

جنگ زینٹا میں شکست سے سلطان بہت متاثر ہوا ، جہاں وہ ذاتی طور پر موجود تھا۔ عمجہ زادہ حسین کو حکومت کرنے کا آزادانہ اختیار دیکر ، وہ درباری زندگی چھوڑ کر ادرنہ کے پرانے محل میں زندگی گزارنے لگا۔ اس کا قریبی مشیر اوراس کا پرانا استاد ، ایک عالم دین فیض اللہ آفندی تھا، جسے اس نے شیخ الاسلام کے عہدے پر مقرر کیا۔ جلد ہی فیض اللہ آفندی سلطان کی موثر آواز بن گئے۔ جیسے ہی معاہدہ کارلوفچہ کے اثرات ختم ہوئے ، فیض اللہ آفندی نے اپنے ارد گرد رشتہ داروں اور اتحادیوں کا ایک ٹولہ جمع کر لیا۔ انھوں نے ان کا کلیدی سرکاری عہدوں پر تقرر کرنا شروع کیا اور وزیر اعظم عمجہ زادہ حسین کے خلاف سازشوں کا مرکز بن گئے۔ فیض اللہ آفندی نے اپنے بیٹے فتح اللہ آفندی کو ، اپنے بعد شیخ الاسلام کے عہدہ پر نامزد کر دیا تھا۔ اس طرح شیخ الاسلام کی تقرری سراسر غیر معمولی تھی لیکن عمجہ زادہ حسین اس معاملے میں بے اختیار تھا۔ اس کے بعد ، جب عمجہ زادہ حسین کی وزارت نے فیض اللہ آفندی کے مفادات کو بری طرح متاثر کرنا شروع کیا ، توفیض اللہ آفندی مداخلت کرنے اور ایسی پالیسی کا اطلاق روکنے میں کامیاب ہو گیا۔ جولائی 1701 میں میزو مورتو حسین پاشا ، جو عمجہ زادہ حسین کا حلیف تھا ، کا انتقال ہو گیا اور استنبول اور ادرنہ کے مابین طاقت کا نازک توازن ادرنہ میں فیض اللہ آفندی کی طرف بڑھا۔ اس نے عمجہ زادہ حسین پاشا کو اتنا مایوس کیا کہ وہ شدید بیماری میں بے بس ہو گئے۔ ستمبر 1702 میں اس بیماری کے بعدعمجہ زادہ حسین پاشا نے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ [2] :227

وہ استنبول کے قریب ، سلویری میں اپنی جاگیر میں رہنے چلاگیا۔ سال کے اختتام سے قبل وہ اپنی جاگیر میں ہی فوت ہو گیا۔ اسے استنبول کے ضلع "سراچانی بیسی" میں واقع ایک تربہ (مزار) میں دفن کیا گیا۔ [3]

اس نے ایک بڑے بحران کے بعد عثمانی اقتدار کو برقرار رکھنے میں کوپرولو خاندان کے رکن کی حیثیت سے ایک قابل منتظم اور ایک اہم مصلح کے طور پر اپنی صلاحیت کا ایک بار پھر مظاہرہ کیا ، لیکن آخر میں ایک طاقتور عالم دین کے ذریعہ انھیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

متروک پُل کے قریب باسفورس پر لکڑی کی قدیم ترین ساحلی حویلیوں میں سے ایک ، اس حویلی کی جزوی باقیات ہیں جسے "کوپرولو عمجہ زادہ حسین یالیسی" کہا جاتا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عمجہ زادہ حسین نے اسی حویلی کے بائیں حصے میں معاہدہ کارلوفچہ کی آخری ترمیمی شکل کا جائزہ لیاتھا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/140756833 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب پ ت ٹ Shaw, Stanford J. (1976), History of the Ottoman Empire and Modern Turkey Vol.1 Empire of the Gazis: The Rise and Decline of the Ottoman Empire, Cambridge:Cambridge University Press آئی ایس بی این 0-521-29163-1
  3. "Amcazade Hüseyin Paşa" in Niyazi Aksit (1984)A'dan Z'ye Tarih Ansiklopedisi (A to Z History Encyclopedia), Istanbul:Serhat Yayinlari p.55(Turkish)