مدھو سودن داس (28 اپریل 1848ء — 4 فروری 1934ء) اڑیسہ کے پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد اور ایڈوکیٹ تھے۔ ان کی پیدائش کٹک، اڑیسہ سے بیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع ستیابھام پور گاؤں میں ہوئی۔[1] مدھو سودن مدھو بابو اور اتکل گَورَو کے القاب سے معروف ہیں۔ وہ شاعر اور مجاہد آزادی تھے۔ وہ اتکل سمیلنی تنظیم کے بانی بھی تھے۔

مدھو سودن داس
(اڈیا میں: ମଧୁସୂଦନ ଦାସ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 28 اپریل 1848ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کٹک ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 فروری 1934ء (86 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کٹک   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ کلکتہ
راونشا یونیورسٹی، کٹک
راونشا کالجیٹ اسکول   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ وکیل ،  صحافی ،  سماجی کارکن ،  سیاست دان ،  انقلابی ،  کاروباری شخصیت ،  استاد جامعہ ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اڑیہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اڑیہ   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

خاندان

ترمیم

مدھو سودن داس ایک زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام چودھری رگھوناتھ داس اور والدہ کا نام پاروتی دیوی تھا۔ ابتدا میں مدھو سودن کا نام گوبند بلبھ تھا جسے بعد میں مدھو سودن کیا گیا۔ ان کی دو بڑی بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام گوپال بلبھ تھا۔ گوپال بلبھ صوبہ بہار کے مجسٹریٹ اور رام دیوی چودھری کے والد تھے۔ مدھو سودن نے دو بنگالی بچیوں سیلابالا داس اور سودھن سوبالا ہازرا کو گود لیا تھا۔ سیلابالا ماہر تعلیم تھی اور انگلستان سے تربیت لے کر آئی تھیں، انہی کے نام پر کٹک کے سیلابالا ویمن کالج کا نام رکھا گیا ہے۔ سودھن سوبالا ہازرا بھی بنگالی تھی اور برطانوی ہند کی پہلی خاتون قانون دان تھیں۔[2]

مدھو سودن کلکتہ یونیورسٹی کے سابق شیخ الجامعہ آشوتوش مکھرجی اور سبھاش چندر بوس کے والد جانکی ناتھ بوس کے استاد بھی تھے۔[3]

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدھو سودن کٹک ہائی اسکول میں داخل ہوئے جہاں انگریزی تعلیم تھی۔ 1864ء میں انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی کا داخلہ امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ انتہائی سخت حالات کے باوجود 1866ء سے 1881ء تک تقریباً پندرہ برس وہ کلکتے ہی میں رہے۔ 1870ء میں انھوں نے بی اے مکمل کیا، وہ پہلے اوڈیا تھے جس نے بی اے مکمل کیا تھا۔ 1873ء میں ایم اے اور 1878ء بی ایل مکمل کیے اور یوں وہ ان ڈگریوں کے حاصل کرنے والے پہلے اوڈیا بنے۔[4]

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

سنہ 1881ء میں وہ کلکتہ سے اڑیسہ واپس آئے اور وکالت شروع کی۔ ان کی بھرپور پیشہ ورانہ معلومات نے انھیں اس میدان میں بہت جلد مقبول کر دیا اور وہ اڑیسہ اور ہندوستان کے وکیلوں اور ماہرین قانون کے مرجع بن گئے۔ ریاست اڑیسہ میں ان کے یوم پیدائش کو یوم وکلا کے طور پر منایا جاتا ہے۔

بحیثیت ادیب

ترمیم

بحیثیت ادیب و شاعر ان کی تمام ادبی تخلیقات میں حب الوطنی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھوں نے انگریزی اور اوڑیا دونوں زبانوں میں متعدد مضامین اور نظمیں لکھیں جن میں "اتکل سنتان"، "جاتی اتہاش" اور "جنانیرا اکتی" قابل ذکر ہیں۔ مدھو سودن انگریزی، اوڑیا اور بنگالی زبانوں کے زبردست مقرر تھے۔

وفات

ترمیم

مدھو سودن داس نے 4 فروری 1934ء کو وفات پائی۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Utkal Gourav Madhusudan Das"۔ Odisha Files۔ 2012۔ 03 مارچ 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 فروری 2013۔ born on 28th اپریل of 1848 to father Choudhuri Raghunath Das and mother Parvati Devi at Satyabhamapur of Cuttack district 
  2. "National memorial for Madhusudan Das"۔ news.oneindia.in۔ 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2012۔ his adopted daughter Sailabala Das 
  3. "Our History"۔ mslawcollege.org۔ 2012۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اپریل 2012۔ Ashutosh Mukherjee, the then Vice-Chancellor of Calcutta University who was a student of Utkal Gourab Madhusudan Das 
  4. Bina Kumari Sarma (1 January 1996)۔ Development of Modern Education in India: An Empirical Study of Orissa۔ M.D. Publications Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 108–۔ ISBN 978-81-85880-94-5۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2018 
  5. Shilpi Sampad، Namita Panda (1 اپریل 2012)۔ "Forgotten Madhu babu"۔ telegraphindia.com۔ Calcutta, India۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 فروری 2013۔ he passed away in Cuttack on February 4, 1934