منشی نول کشور
منشی نول کشور (پیدائش: 3 جنوری 1836ء— وفات: 19 فروری 1895ء) برطانوی ہندوستان کے نامور شہرت یافتہ کتب کے ناشر تھے۔
منشی نول کشور | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 03جنوری 1836ء متھرااتر پردیش ہندوستان |
وفات | 19فروری 1895ء دہلی |
شہریت | برطانوی ہند کے صوبے اور علاقے |
مذہب | ہندومت |
عملی زندگی | |
پیشہ | ناشر ، مدیر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [1] |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیممنشی نول کشور کی ولادت 3 جنوری 1836 کو متھرا میں ہوئی۔ منشی نول کشور کے والد کانام پندت جمونا پرساد بھگاوکا تھا، ان کے والد علی گڑھ کے زمیندار تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز مکتب میں فارسی اور اردو پڑھ کر کیا تھا۔ منشی نول کشور ایک کتاب پبلشر تھے۔ انھیں بھارت کا کیکسٹون کہا جاتا ہے۔ 1858 ء میں، 22 سال کی عمر میں، انھوں نے 'نول کشور پریس اور کتاب ڈپو' لکھنؤ میں قائم کیا تھا۔ آج یہ ادارہ ایشیا میں سب سے پرانی پرنٹنگ اور اشاعت کا مرکز ہے۔ مرزا غالب منشی نول کشور کے وفادار دوست تھے۔ منشی نول کشور کے والد کانام پنڈت جمونا پرساد بھگاوکا تھا،آپ کے والد علی گڑھ کے زمیندار تھے1970 میں ہندوستان کی حکومت نے ان پر اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
خدمات
ترمیممنشی نول کشورکی نوجوانی کے زمانے میں لاہور سے اخبار 'کوہِ نور' نکلتا تھا جس میں آپ کے مضامین شائع ہونے لگے، جو اس قدر مقبول ہوئے کہ اس کے مدیر منشی ہرسُکھ رائے نے انھیں لاہور آ کر اخبار میں کام کرنے کی دعوت دی جو نول کشور نے قبول کر لی۔1857 کے ملک گیر فسادات شروع ہو چکے تھے، جن میں دوران میں امرا و روسا کے صدیوں پرانے کتب خانوں میں موجود ہزاروں نادر مخطوطے تلف ہو گئے۔ 21 سالہ نول کشور نے تمام صورتِ حال کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور انھیں ہم وطنوں کی حالت سدھارنے کا ایک کارگر طریقہ سوجھ گیا۔[2] آپ نے چند مذہبی رسائل اور بچوں کے قاعدے چھاپے اور انھیں خود ہی بیچنا شروع کیا۔ وہ خود اپنے کندھوں پر طبع شدہ مواد کے گٹھڑ اٹھا کر بازار اور دفاتر تک لے جاتے تھے۔ انگریزوں کو ان کی لگن پسند آئی اور انھیں دفتری سٹیشنری کے ٹھیکے ملنے لگے۔26 نومبر 1858 میں انھوں نے ’اودھ اخبار‘ کا اجرا کیا جو بڑے سائز کے چار صفحات پر مبنی ہوتا تھا۔
داستان امیر حمزہ
ترمیماس سلسلے میں غالباً ان کے پریس کا سب سے بڑا کارنامہ داستان امیر حمزہ کی 46 جلدوں کی اشاعت ہے، جسے دنیا کی سب سے بڑی داستان کہا جاتا ہے۔
دیگر کتب کی اشاعت
ترمیمہندو ہونے کے باوجود منشی نول کشور نے کئی اہم اسلامی کتابیں، قرآن کی تفاسیر، احادیث کے مجموعے اور فقہ کی کتابیں شائع کیں۔ مطبع منشی نول کشور لکھنؤ سے 1858 سے 1950 تک6000 سے زیادہ کتابیں شائع ہوئی۔1950 میں منشی نول کشور کا پریس خاندانی جھگروں کی بنا پر بند ہو گیا ۔[3]
مطبع منشی نول کشور کی مطبوعہ کتابیں
ترمیمنول کشور پریس کی طبع شدہ کتابوں کے چند نام:
- فتاویٰ عالمگیری
- سنن ابی داؤد
- سنن ابن ماجہ
- مثنوی مولانا روم
- قصائدِ عرفی
- تاریخِ طبری
- تاریخِ فرشتہ
- دیوانِ امیر خسرو
- مراثی انیس
- فسانۂ آزاد
- داستانِ امیر حمزہ
- دیوانِ غالب
- کلیاتِ غالب فارسی
- الف لیلہ
- آثار الصنادید (سر سید احمد خان)
- قاطعِ ب رہان (غالب)،
- آرائشِ محفل
- دیوانِ بیدل
- گیتا کا اردو ترجمہ
- رامائن کا اردو ترجمہ
- بوستان
اور دیگر کئی صد کتابیں ہیں۔
غالب سے دوستی
ترمیممنشی صاحب کے ساتھ جن لوگوں نے اس اخبار میں کام کیا ان میں رتن ناتھ سرشار، عبد الحلیم شرر، قدر بلگرامی، منشی امیر اللہ تسلیم اور دوسرے مشاہیرِ اردو شامل ہیں۔
اس اخبار میں جن لوگوں کے مضامین چھپتے تھے ان میں مرزا غالب اور سر سید احمد خان بھی شامل ہیں۔ سرشار کا شاہکار فسانۂ آزاد اسی اخبار میں دسمبر 1878 سے دسمبر 1879 تک قسط وار چھپتا رہا۔
مرزا غالب منشی صاحب کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ وہ نول کشور پریس کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس چھاپہ خانے نے جس کا بھی دیوان چھاپا، اس کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔‘‘ غالب منشی صاحب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے سے دریغ نہیں کرتے، چنانچہ ایک اور خط میں ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’خالق نے اسے زہرہ کی صورت اور مشتری کی سیرت عطا کی ہے۔‘‘
غالب کے دوست قدر بلگرامی جب مالی مشکلات کا شکار ہوئے تو غالب نے انھیں خط میں لکھا کہ جا کر لکھنؤ میں میرے دوست سے ملو، تمھارا کام ہو جائے گا۔[2]
وفات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 14 مئی 2020
- ^ ا ب پ ظفر سید (7 ستمبر، 2017)۔ "منشی، جن کے بادشاہ بھی معترف تھے" – www.bbc.com سے
- ↑ "Naval Kishore heritage books restored, Urdu books go digital - Times of India"۔ The Times of India
- ↑ Rauf Parekh (15 فروری، 2010)۔ "A great benefactor of Urdu and Islam"۔ DAWN.COM