نماز خوف:جب حالت جہاد یہ خوف ہوکہ اگر سب لشکر باجماعت نماز میں مشغول ہوا تو کفار ماردیں گے تب نماز باجماعت کس طرح پڑھی جائے اور اس پر قر یبًا ساری امت کا اجماع ہے کہ صلوۃ خوف تاقیامت باقی ہے

صلاۃ خوف كا طريقہ

ترمیم

درج ذيل فرمان بارى تعالى كى بنا پر صلاۃ خوف مشروع ہے:

﴿ اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو چاہيے كہ ان ميں سے ايك جماعت تمھارے ساتھ اپنے ہتھيار ليے ہوئے كھڑى ہو، پھر جب يہ سجدہ كر چكيں تو يہ ہٹ كر تمھارے پيچھے آجائيں اور وہ دوسرى جماعت جس نے نماز ادا نہيں كى وہ آجائے اور آپ كے ساتھ نماز ادا كرے اور اپنے بچاؤ كے ليے ہتھيار اپنے ساتھ ليے ركھے، كافر تو يہ چاہتے ہيں كہ كسى طرح تم اپنے ہتھياروں اور اپنے سامان سے غافل ہو جاؤ تو وہ تم پر اچانك دھاوا بول ديں، ہاں اپنے ہتھيار اتار كر ركھنے ميں اس وقت تم پر كوئى گناہ نہيں جب كہ تمہيں تكليف ہو يا بارش كى وجہ سے يا بيمارى كے باعث اور اپنے بچاؤ كى چيزيں ساتھ لیے رہو، يقينا اللہ تعالى نے منكروں كے ليے ذلت آميز عذاب تيار كر ركھا ہے ﴾[1]۔

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اپنے صحابہ كرام كو كئى بار مختلف طريقوں سے صلاۃ خوف پڑھائى ہے۔

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

صلاۃ خوف كے متعلق چھ يا سات احاديث ثابت ہيں ان ميں سے جس طريقہ پر بھى صلاۃ خوف ادا كر لى جائے جائز ہے۔

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نماز خوف كے اصل ميں چھ طريقے ہيں اور بعض طريقے دوسرے سے زيادہ بليغ ہيں، انھوں نے قصہ ميں راويوں كے اختلاف كو ديكھا تو اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك مستقل طريقہ بنا ديا، حالانكہ يہ راويوں كا اختلاف تھا " انتہى

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور معتبر بھى يہى ہے۔

صلاۃ خوف كا طريقہ شديد خوف اور دشمن كى جگہ مختلف ہونے كى صورت ميں مختلف ہو گا، كہ آيا دشمن قبلہ كى جانب ہے يا نہيں؟

امام كو چاہيے كہ وہ حالت كى مناسبت اور مصلحت كو مد نظر ركھتے ہوئے جو طريقہ مناسب ہو اسے اختيار كرے اور مصلحت يہ ہے كہ نماز كے ليے احتياط اور دشمن سے بچاؤ اور مكمل حفاظت ہو، حتى كہ دشمن مسلمانوں پر نماز كى حالت ميں اچانك حملہ نہ كرديں۔

خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" صلاۃ خوف كى كئى اقسام ہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مختلف ايام ميں مختلف طريقوں اور اشكال ميں صلاۃ خوف ادا كى ہے، ان سب طريقوں ميں انھوں نے وہ طريقہ اختيار كيا جو نماز كے ليے زيادہ مناسب اور احوط ہو اور دشمن سے بچاؤ ميں زيادہ بہتر " انتہى [2]

صلاۃ خوف كى ابتدائى مشروعيت

ترمیم

جابر بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى معيت ميں جھينہ قوم كے ساتھ غزوہ ميں حصہ ليا تو انھوں نے ہمارے ساتھ بہت شديد لڑائى لڑى، جب ہم نے ظہر كى نماز ادا كى تو مشرك كہنے لگے:

اگر ہم ان پر يكبارگى حملہ كرديں تو ہم ان كى جڑ كاٹ كر ركھ دينگے، چنانچہ جبريل امين عليہ السلام نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى خبر كر دى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا كہ:

وہ كہنے لگے: ابھى ان كى نماز كا وقت ہونے والا ہے يہ نماز انہيں اپنى اولاد سے بھے زيادہ محبوب ہے، چنانچہ جب نماز عصر كا وقت ہوا، جابر رضى اللہ تعالى كہتے ہيں: ہم نے دو صفيں بنائيں اور حالت يہ تھى كہ مشرك ہمارى قبلہ والى جہت ميں تھے۔۔۔ پھر بيان كيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں صلاۃ خوف پڑھائى "[3]۔

پہلا طريقہ

ترمیم

اگر دشمن قبلہ كى جہت ميں نہيں تو پھر لشكر كا امير اور قائد لشكر كو دو گروہوں ميں تقسيم كرے گا، ايك گروہ اس كے ساتھ نماز ادا كرے اور دوسرا دشمن كے مقابلہ ميں رہے، تا كہ وہ مسلمانوں پر حملہ نہ كر ديں، چنانچہ پہلے گروہ كو ايك ركعت پڑھائے اور جب دوسرى ركعت كے ليے اٹھے تو وہ خود نماز مكمل كر ليں، يعنى وہ انفرادى نماز كى نيت كرتے ہوئے دوسرى ركعت خود مكمل كر ليں اور امام كھڑا رہے، پھر جب وہ نماز مكمل كر كے چلے جائيں اور دوسرے گروہ كى جگہ دشمن كے سامنے چلے جائيں، تو دشمن كے سامنے كھڑا دوسرا گروہ آكر امام كے ساتھ دوسرى ركعت ميں مل جائے، اس صورت ميں امام دوسرى ركعت پہلى ركعت سے لمبى ادا كرے گا تا كہ دوسرا گروہ اس كے ساتھ آكر مل سكے اور باقى مانندہ ركعت امام كے ساتھ ادا كرے پھر امام تشھد ميں بيٹھ جائے اور دوسرا گروہ سجدہ سے اٹھ كر دوسرى ركعت مكمل كرے اور امام كے ساتھ تشھدميں مل كر اكٹھے سلام پھير ديں۔

يہ صورت اور طريقہ قرآن مجيد كى درج ذيل آيت كے موافق ہے:

﴿ اور جب آپ ان ميں ہوں اور ان كے ليے نماز كھڑى كرو تو چاہيے كہ ان ميں سے ايك جماعت تمھارے ساتھ اپنے ہتھيار ليے ہوئے كھڑى ہو، پھر جب يہ سجدہ كر چكيں ( يعنى نماز مكمل كرليں ) تو يہ ہٹ كر تمھارے پيچھے آجائيں اور وہ دوسرى جماعت ( جو دشمن كے سامنے ہے ) جس نے نماز ادا نہيں كى وہ آجائے اور آپ كے ساتھ نماز ادا كرے اور اپنے بچاؤ كے ليے ہتھيار اپنے ساتھ ليے ركھے ﴾[4]۔[5]

امام بخارى اور مسلم نے مالك عن يزيد بن رومان عن صالح بن حوات اور وہ ايك صحابى سے روايت كرتے ہيں كہ جو غزوہ ذات الرقاع ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ موجود تھے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں صلاۃ خوف اس طرح پڑھائى:

" ايك گروہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صف بنائى اور ايك گروہ دشمن كے سامنے ڈٹا رہا، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ساتھ نماز ميں كھڑے گروہ كو ايك ركعت پڑھائى اور پھر كھڑے رہے اور پيچھے كھڑے صحابہ نے خود ہى نماز مكمل كى اور دشمن كے مقابلہ ميں چلے گئے اور دوسرا گروہ جو دشمن كے سامنے تھا وہ آكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ باقى مانندہ نماز ميں شامل ہو گيا، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بيٹھے رہے حتى كہ صحابہ نے خود نماز كى دوسرى ركعت مكمل كى اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ساتھ سلام پھيرا " [6] ۔

مالك رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: نماز خوف كے متعلق ميں نے سب سے بہتر يہى سنا ہے۔

دوسرى طريقہ

ترمیم

" اگر دشمن قبلہ كى جہت يعنى قبلہ رخ ہو تو امام لشكر كى دو صفيں بنائے اور سب كو اكٹھے نماز شروع كرائے گا اور ركوع بھى سب كرينگے اور ركوع سے سب اكٹھے سر اٹھائينگے، ليكن جب سجدہ كرے تو پہلى صرف امام كے ساتھ پہلى صف سجدہ ميں جائے اور دوسرى صف پہرہ دينے كے ليے كھڑى رہے اور جب امام پہلى صف كے ساتھ اٹھ كر كھڑا ہو جائے تو پچھلى صف سجدہ كرے اور جب كھڑے ہوں تو پچھلى صف آگے آ جائے اور پہلى صف پيچھے چلى جائے پھر امام ان سب كو دوسرى ركعت پڑھائے سب اكٹھے قيام اور ركوع كريں ليكن جب سجدہ ميں جائے تو پہلى صف سجدہ كرے جو كہ پہلى ركعت ميں پيچھے تھى اور جب تشھد ميں بيٹھ جائيں تو پچھلى صف سجدہ ميں جائے اور جب سب تشھد ميں بيٹھ جائيں تو امام سب كے ساتھ اكٹھى سلام پھيرے۔

يہ صورت صرف اس وقت ممكن ہے جب دشمن قبلہ كى جہت ميں ہو" [7] ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صلاۃ خوف ادا كى چنانچہ ہم نے دو صفيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے بنائيں اور دشمن ہمارى قبلہ والى جہت ميں تھا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تكبير تحريمہ كہى اور ہم سب نے بھى تكبير تحريمہ كہى، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع كيا اور ہم سب نے بھى ركوع كيا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع سے سر اٹھايا تو ہم سب نے بھى ركوع سے سر اٹھا ليا، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے ساتھ پہلى صف والوں نے سجدہ كيا، ليكن پچھلى صف والے دشمن كے سامنے كھڑے رہے اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سجدہ مكمل كر ليا اور آپ كے ساتھ والى صف كے لوگ كھڑے ہو گئے تو پچھلى صف والے لوگ سجدہ ميں چلے گئے اور سجدہ مكمل كر كے كھڑے ہوئے تو پھر پچھلى صف والے آگے اور اگلى صف والے لوگ پچھلى صف ميں آ گئے، پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع كيا اور ہم سب نے بھى ركوع كيا، پھر ركوع سے سر اٹھايا تو ہم سب نے بھى ركوع سے سر اٹھا ليا، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور آپ كے ساتھ والى صف جو پہلى ركعت ميں پيچھے تھى نے سجدہ كيا اور پچھلى صف دشمن كے سامنے كھڑى رہى اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے ساتھ والى صف نے سجدہ مكمل كيا تو پچھلى صف نے سجدہ كيا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ نے سلام پھيرا تو ہم سب نے بھى سلام پھير ليا " [8] ۔

تيسرا طريقہ

ترمیم

اگر شديد قسم كا خوف ہے اور امام كے ليے مسلمانوں كو نماز باجماعت كروانى ممكن نہ ہو، يہ گھمسان كى لڑائى اور دونوں صفوں كا آپس ميں شديد لڑائى كى صورت ميں ہو گا۔

چنانچہ اس حالت ميں ہر مسلمان لڑائى كے دوران میں پيدل يا سوارى پر قبلہ رخ ہو كر يا بغير قبلہ رخ ہوئے ہى انفرادى حالت ميں ہى نماز ادا كرے گا اور ركوع و سجود كے وقت جھكے گا ليكن سجدہ ركوع سے كچھ زيادہ نيچے ہو۔

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اگر تم خوف كا شكار ہو تو پيدل يا سوار ہو كر ﴾[9] ۔

سعدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" رجالا " پيدل، " او ركبانا " گھوڑوں اور اونٹوں اور باقى ہر قسم كى سوارى پر، اس حالت ميں قبلہ رخ ہونا لازم نہيں، چنانچہ خوف كى بنا پر معذور شخص كى يہ نماز ہو گى" انتہى [10] ۔

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر وہ اس سے زيادہ ہوں تو كھڑے اور سوار ہو كر نماز ادا كريں " [11] ۔

حافظ رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح ميں لكھتے ہيں:

" اور اگر وہ اس سے زيادہ ہوں "

يعنى اگر دشمن زيادہ ہو، معنى يہ ہے كہ جب شديد قسم كا خوف ہو اور دشمن كى تعداد زيادہ ہو اور اس بنا پر منقسم ہونے كا خدشہ ہو تو اس وقت جس طرح ممكن ہو سكے نماز كى جائے اور جن اركان كى ادائيگى كى قدرت نہ ہو تو اس كا اہتمام كرنا اور خيال ركھنا ترك كر ديا جائيگا، چنانچہ قيام سے ركوع اور ركوع و سجود سے اشارہ كى طرف منتقل ہو جائينگے، جمہور علما كرام كا يہى كہنا ہے " انتہى

اور طبرانى نے ابن عمر سے بيان كيا ہے كہ:

( جب وہ لڑائى ميں مشغول ہوں اور ايك دوسرے سے گھتم گتھا ہو جائيں، تو ذكر اور سر كے اشارہ سے نماز ادا ہو گى )۔

اور امام بخارى نے نافع سے بيان كيا ہے كہ عبد اللہ بن عمر نے نماز خوف كا طريقہ ذكر كيا اور پھر كہنے لگے:

" اگر خوف اس سے بھى زيادہ شديد ہو تو وہ پيدل كھڑے ہو كر نماز ادا كرينگے يا پھر سوارى پر ہى قبلہ رخ ہو كر، يا قبلہ رخ ہوئے بغير ہى "

نافع رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميرے خيال ميں عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہى بيان كيا ہے۔ [12] ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" حاصل يہ ہوا كہ ان كے اس قول: " اگر خوف اس سے بھى شديد ہو " ميں اختلاف ہے، آيا يہ مرفوع ہے يا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما پر موقوف ہے؟ ليكن راجح يہ ہے كہ يہ مرفوع ہے " انتہى

موطا كى شرح المنتقى ميں ہے كہ:

" ( اگر خوف اس سے بھى زيادہ شديد ہو " يعنى اتنا شديد خوف ہو كہ كسى ايك جگہ پر كھڑا ہونا ممكن نہ ہو اور نہ ہى صف بنائى جاسكتى ہو، تو اس صورت ميں پيدل اپنے پاؤں پر ہى نماز ادا كرينگے، كيونكہ خوف كى دو قسميں ہيں:

ايك قسم ميں استقرار اور صف بنانى ممكن ہے، ليكن نماز ميں مشغول ہونے كى بنا پر خدشہ ہے كہ دشمن حملہ نہ كردے۔۔۔

ليكن خوف كى دوسرى قسم ميں نہ تو استقرار ممكن ہے اور نہ ہى صف بنانى ممكن ہے، مثلا دشمن سے بھاگنے والا شخص تو اس شخص سے مطلوب ہے كہ اس كے ليے جس طرح بھى ممكن ہو نماز ادا كر لے، چاہے پيدل يا سوارى پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اگر تمہيں خوف ہو تو پھر پيدل يا سوار ہو كر ﴾۔

چہارم

ترمیم

شيخ ابن عثيمين " الشرح الممتع " ميں لكھتے ہيں:

" اور ليكن اگر كوئى قائل يہ كہے كہ: اگر فرض كر ليا جائے كہ نماز خوف ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جتنى صورتيں ثابت ہيں دور حاضر ميں ان كى تطبيق ممكن نہيں؛ كيونكہ جنگى وسائل اور اسلحہ بہت مختلف ہے؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

اگر ايسے وقت ميں نماز ادا كرنے كى ضرورت پيش آ جائے جس ميں دشمن سے خطرہ ہو اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بتائے ہوئے طريقوں كے مطابق نماز ادا نہ كر سكيں تو وہ اس طريقہ كے مطابق نماز ادا كرينگے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بتائے ہوئے طريقوں ميں سب سے زيادہ قريب ہو، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ تم ميں جتنى استطاعت ہے اس كے مطابق اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو ﴾[13] ۔ [14] ۔

  1. النساء 102
  2. ماخوذ از: شرح مسلم للنووى۔
  3. صحيح مسلم حديث نمبر 840
  4. النساء 102
  5. الشرح الممتع 4 / 298
  6. صحيح بخارى حديث نمبر 413 صحيح مسلم حديث نمبر 842
  7. الشرح الممتع 4 / 300
  8. صحيح مسلم حديث نمبر 840
  9. البقرۃ 239
  10. تفسير السعدى 107
  11. صحيح بخارى حديث نمبر 943
  12. صحيح بخارى حديث نمبر 4535
  13. التغابن 16
  14. الشرح الممتع 4 / 300