ہڑپہ
اس مضمون میں ویکیپیڈیا کے معیار کے مطابق صفائی کی ضرورت ہے، (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
ہڑپہ پاکستان کا ایک قدیم شہر ہے جس کے کھنڈر پنجاب میں ساہیوال سے 35 کلومیٹر مغرب کی طرف چیچہ وطنی شہر سے 15 کلومیٹر پہلے کھدائی کے دوران ملے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً 1200 سال پہلے لکھی جانے والی ہندووں کی کتاب رگ وید سے اس شہر کی تاریخ کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
سرکاری نام | |
ہڑپہ | |
ملک | پاکستان |
صوبہ | پنجاب، پاکستان |
ضلع | ضلع ساہیوال |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
رگ وید میں ایک شہر کا نام آیا ہے ’ ہری یوپیہ ‘ سنسکرت میں اس کا مطلب ہے ’ قربانی کے سنہری ستوں والا شہر ‘ ماہرین کا اب اتفاق ہے۔ جن میں ویلز اور ڈی ڈہ کوسامبی شامل ہیں کہ ہری یوپیہ ہڑپہ ہی کا سنسکرت میں نام ہے۔ اگرچہ اس کا اصل نام کچھ اور ہوگا، شاید ہری یوپویا ہو یا کچھ اور ہو اور رگ وید کے مطابق اسی ہری یوپیہ کے قریب آریاؤں کی مقامی باشندوں سے جنگ ہوئی تھی۔ رگ وید میں آیا ہے اندرا نے ورشکھو ( یا ورچکھو ) کی باقیات کو ایسے ملیامیٹ کر دیا کہ جیسے مٹی کا برتن۔ اس نے ورچی وات ( یا ورشی ونت یا ورکی ذات ) لوگوں کے ایک سو تیس مسلح جانبازوں کی پہلی صف کو کچل دیا۔ جس پر باقی بھاگ کھڑے ہوئے ۔
دریافت
ترمیم1921ء میں رائے بہادر دیا رام سہنی نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ہڑپہ کی کھدائی کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈائریکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔
1931ء میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے کام روک دیا گیا۔ بعد میں بھی کھدائی کا کام بھرپور طریقہ سے نہیں ہو سکا۔ قدیم ہڑپہ کے مقام سے موجودہ دریائے راوی تقریباً چھ میل دور ہے۔ لیکن جب یہ شہر آباد تھا تو راوی اس کے قریب بہتا تھا۔ اس لیے ہڑپہ کے قلعے کے قدیم دور میں اس کے ساتھ کچی اینٹوں اور مٹی سے ایک بڑا حفاظتی بند بنایا گیا تھا۔ جب کبھی راوی میں سیلاب آتا تو یہ بند قلعے کی حفاظت کرتا تھا۔ ہڑپہ اور موئن جو دڑو دونوں شہروں کا نقشہ اور ترتیب آپس میں انتہائی مشابہت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ہڑپہ سے ان گنت اینٹیں لوگوں نے چوری کرکے نئی تعمیرات میں استعمال کیں اور لاہور ملتان ریلوے لائین بچھانے کے سلسلے میں یہاں سے ملبہ اٹھا کر استعمال کیا گیا۔ جس وجہ سے ہڑپہ کی مکمل شکل و صورت ماہرین آثار کے سامنے نہیں آ سکی، پھر بھی جو کچھ بچا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہڑپہ کا عمومی نقشہ موہونجودڑو جیسا تھا۔ ہڑپہ کی سب سے نچلی تہ موہنجودڑو کی پہلی تہ سے زیادہ پرانی معلوم ہوتی ہے اور وہاں کی آخری، یعنی سب سے بعد کی تہوں میں ایسے آثار ملے ہیں جو موئن جو دڑوکے آخری زمانے کے بعد کے ہیں۔
قلعہ
ترمیمقلعہ جنوب مغرب میں ہے اور نچلا شہر مشرق اور جنوب مشرق میں ہے۔ ان دونوں کے درمیان میں منظم شہر کی باقیات ہیں۔ قلعے کے جنوب میں ایک پہاڑی ہے اور قبرستان ہے۔ جسے ’ مدفن H ‘ کہتے ہیں۔ شمالاً جنوباً 460 گز اور اس کی موجودہ چوٹی کی زمین شمال سے جنوب کی طرف ڈھلان رکھتی ہے اور اس کی سب سے اونچی جگہ ایک جدید قبرستان ہے۔ جس کی وجہ سے کھدائی نہیں کی جاسکی۔ یہ سب اونچی جگہ ارد گرد کی سطح زمین سے 45 فٹ تا 50 فٹ اونچی ہے۔ قلعے کے اندر کی عمارتیں اس وقت زمین سے بیس تا پچیس اونچے چبوترے پر بنائی گئی تھیں۔ چبوترا مٹی اور کچی اینٹوں سے بنایا گیا تھا اور اس کے ارد گرد نہایت موٹے حفاظتی پشتے تھ۔ اس پشتے میں ایک مختصر سی جگہ کھودی گئی ہے۔ اس کے نیچے برتنوں کے کچھ ٹکڑے ملے ہیں۔ جس کا مطلب ہے یہاں قریب انسانی آبادی رہی ہوگی۔ کچھ برتن رانا غندئی کے سطح سوم کے برتنوں جیسے ہیں۔ یہ پہلی آبادی ہے جو گاؤں کے لوگوں کی ہے۔ ان برتنوں پر سرخ رنگ کیا ہوا تھا۔ پھر اس پر سیاہ رنگ نقاشی کی گئی ہے۔ اس کے بعد دوسرے دور میں قلعے کی ایک عظیم فیصل بنتی ہے اور اس کے ساتھ ایک حفاظتی پشتہ بنایا جاتا ہے۔ جو اینٹ روڑوں اور مٹی سے بھرا گیا ہے۔ یہ پشتہ بنیادوں کے قریب 35 فٹ چوڑا ہے اور اوپر چڑھتے ہوئے پتلا ہوجاتا ہے۔ اصل فصیل اندر اور باہر سے پختہ اینٹوں سے بنی ہے اور بیچ میں کچی اینٹوں سے بھرائی کی ہے۔ اس دیوار کی کل موٹائی چایس فٹ ہے اور اونچائی 35 فٹ۔ فصیل کے باہر جو پختہ اینٹوں کی دیوار ہے وہ چار فٹ موٹی ہے۔ قلعے کی فصیل میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر حفاظتی برج بنے ہوئے ہیں۔ جو فصیل سے اونچے ابھرے ہوئے ہیں۔ قلعے کا اصل پھاٹک شمالی جانب تھا۔ ایک چور دروازہ مغربی جانب تھا۔ جس کے آگے ایک حفاظتی برج تھا۔ اس چور دروازے سے اندر داخل ہوں تو اندر کئی دروازے ہیں۔ جس کے اندر دمدمے اور چبوترے ہیں اور ان کی بغل میں محافظوں کے کمرے ہیں۔ چور دروازے کی بھول بھلیوں کے جنوبی سرے پر ایک خفیہ راستہ زینے کے ذریعے قلعے کے اندر داخل ہوتا تھا۔ ہڑپہ میں زینے کا استعمال عام تھا۔ قلعے کی تعمیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلی بار اتنی عمدگی سے نہیں تعمیر کیا گیا۔ بلکہ اس کی تعمیر کے بھی کم از کم تین مرحلے ہیں۔ پہلی بار قلعہ پکی اینٹوں کے ٹکڑوں سے بنایا گیا تھا اور اس پر کسی حملے کے اثرات کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ بلکہ صرف موسمی اثرات دیکھنے میں آتے ہیں۔ دوسری تعمیر پختہ سالم اینٹوں سے کی گئی۔ اس مرتبہ فن تعمیر پہلے سے بدرجہ بہتر ہے۔ تیسری تعمیر میں فصیل کے ارد گرد بھاری بھرکم پشتے لگائے گئے ہیں اور قلعہ واقعی زبردست قلعہ بن گیا۔ اس مطلب ہے ایک تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی خوش حالی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ دوسرے یہ بھی ہے کہ عوام کے بالمقابل اور دیگر حملہ آوروں کے خلاف حفاظت کی ضرورت کا بڑھ جانا ہے۔
غلام گھر
ترمیمقلعے کے شمال کی جانب ایک بیس فٹ اونچی اور 300 گز مربع وسیع ڈھیری کی کھدائی کی گئی ہے۔ اس کے نیچے سے اہم عمارتیں برآمد ہوئیں۔ قلعہ کے قریب فوجی بیرکوں کے انداز کی عمارتوں کی دو قطاریں چلی گئی ہیں۔ ایک قطار میں سات اور دوسری میں آٹھ گھر ہیں۔ ہر گھر کے آگے پیچھے دائیں بائیں گلیاں ہیں۔ کہیں بھی دو گھر کی دیواریں ساتھ نہیں ہیں۔ ہر گھر کا سائز 52 * 24 فٹ ہے۔ ہر گھر ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ ہر گلی تین سے چار فٹ چوڑی تھی۔ ہر گھر میں داخلے کا رستہ ترچھا اور خفیہ تھا۔ یہ آبادی انتہائی منظم طریقہ سے بنی ہے اور تنطیم میں باقائدہ شہر ہے جو انتہائی منظم ہے۔ حد درجہ منفرد اور نمایاں ہے۔ یقینا یہ حکومت نے سرکاری منصوبہ بندی کے تخت بنائی ہے۔ ان بیرک نما مکانوں کو غلاموں کے گھر سمجھا گیا ہے۔ یہ غلام گھر جب مٹی میں دفن ہو چکے تو ان کے اوپر نئی زمین پر سولہ بھٹیاں بنائی گئی تھیں۔ یہ ناشپاتی کی شکل کی تھیں۔ ان کی لمبائی تین فٹ چار انچ سے لے کر چھ فٹ دو انچ تک تھی اور اس میں جلانے کے لیے گائے کا گوبر اور لکڑی کا کوئلہ استعمال کیا جاتا تھا اور دھوکنی سے ہوا دی جاتی تھی۔ ان بھٹیوں کے قریب ایک کھٹالی پڑی ہوئی ملی ہے۔ جس میں کانسی پگھلانے کے آثار ہیں۔
چکیاں
ترمیمغلام گھر سے آگے شمال کی طرف گول چبوتروں کی پانچ قطاریں چلی گئی ہیں۔ یہ پختہ اینٹوں سے بنے پونے گیارہ سے لے گیارہ فٹ قطر کے گول چبوترے ہیں۔ جن کے مرکز میں خالی جگہ ہے۔ اس خالی جگہ میں لکڑی کی بڑی بڑی اوکلیاں دبائی ہوتی تھیں۔ جن میں لکڑی کے بڑے بڑے موصلوں سے کوٹ کوٹ کر آٹا پستے تھے تو یہ چکیاں تھیں۔ شروع میں سترہ چکیاں دریافت ہوئیں۔ 1946 میں کھدائی میں مزید ایک اور نکالی گئیں۔ مزید کھدائی سے مزید چکیاں نکل نے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ان میں ایک میں سے بھوسے کے ٹکڑے ملے ہیں اور ایک میں جلی ہوئی گندم جھڑے ہوئے جو، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اوکھلی اور موصلی سے جو جھڑنے اور گندم پیسنے کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ چکیاں کارخانہ معلوم ہوتی ہیں ۔۔۔ یہ ایک بڑی سرکاری فلور مل ۔۔۔ جس میں غلام مشقت پر مامور تھے۔ بعض چکیوں کی اینٹیں گھسی ہوئی صاف ظاہر دکھائی دیتی ہیں۔ جو ثابت کرتی ہیں کہ یہاں یہاں پر برہنہ پا غلام کھڑے ہوکر غلہ کوٹتے تھے ۔
اناج گھر
ترمیمان چکیوں سے آگے ایک بڑا اناج گھر ہے۔ جس میں عمارتوں کی دو قطاریں ہیں جن کے اندر غلہ گوداموں کا ایک مسبوط سلسلہ ہے۔ یہ ہڑپہ کی ایک نمایاں عمارت ہے۔ پہلے زمین کے اوپر چار فٹ اونچا مٹی کا چبوترا بنایا گیا ہے۔ اس کے اوپر یہ سارے گودام ہیں۔ ہر گودام کا سائز 50 * 20 فٹ ہے اور ایسے چھ گوداموں پر مشتمل دو قطاریں متوازی بنائی گئیں ہیں۔ ان قطاروں کا درمیانی فاصلہ 23 فٹ ہے۔ یہ اناج گھر دریا کے کنارے واقع تھا اور اس میں داخلے کا رستہ دریا کی جانب تھا۔ جس کا مطلب ہے مختلف دیہاتوں سے گندم اکھٹی کر کے دریا کے راستے گودام تک لائی جاتی تھی اور پھر دوسرے علاقوں کو جاتی بھی دریا کے راستے سے تھی۔ ہر گودام کے اندر دہرا فرش تھا، جو سلیپروں کی دیواروں پر بنایا گیا تھا۔ سلیپر رکھنے کا مقصد یہ تھا۔ کہ گودام کے نیچے سے ہوا گذرے۔ تاکہ اناج نمی سے ے محفوظ رہے۔ تین سلیپروں کی ایک دیوار بنتی تھی۔ ان گوداموں میں داخلے کا اندورنی راستہ اندرونی راہ داری میں سے جاتا تھا۔ اتنا ہی رقبہ موئن جو دڑو کے اناج گھر کا تھا۔ قلعے کے پاس ہی غلاموں کے کواٹر اور پاس ہی چکیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں غلامی کا نظام تھا۔ یہاں کے غلام جبری زندگی پر راضی برضا تھے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلطنت کی سب سے بڑی دولت یہی اناج تھا۔ جس کی اول تو پیداوار کو بھی نہیں کم از کم تقسیم کو حکومت ضرور کنڑول کرتی تھی۔ حکومت کے ملازم افسر بھی ہوں گے۔ منشی اور مزدور بھی۔ موہنجودڑو میں ایسا اناج گھر قلعے کے اندر واقع ہے۔ چونکہ ابھی سکہ ایجاد نہیں ہوا تھا۔ اس لیے اس اناج گھر کو سرکاری خزانہ سمجھنا چاہیے اور سرکاری ملازموں کی تنخوائیں اسی ہی غلہ سے ادا کی جاتی ہوگی۔ ایسا ہی رواج میسوپوٹیمیا میں بھی رواج تھا۔
مہریں
ترمیمہڑپہ میں نسبتاً زیادہ قدیم زمانے کی انتہائی ننھی منی مہریں بھی ملی ہیں جن کی لمبائی 1.07 تا 1.36 انچ ہے۔ چوڑائی 1.02 تا 1.06 موٹائی 1.05 تا 1.13 انچ ہے۔ ان پر جانوروں تصویریں نہیں ہیں یا نشانات ہیں یا پھر مچھلی یا مگر مچھ وغیرہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سوراخ بھی نہیں ہیں ۔[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور،پروفیسر محمد مجیب۔ تاریخ تمذن ہند، ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دؤم ،ڈی ڈی کوسمبی۔ قدیم ہندوستان
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر ہڑپہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |