یورینیئم
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عمومی خواص | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
نام، عدد، علامت | U ،92 ،uranium | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیمیائی سلسلے | actinides | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گروہ, دور, خانہ | n/a, 7, f | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
اظہار | silvery gray metallic; corrodes to a spalling black oxide coat in air | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
جوہری کمیت | 238.02891 (3) گ / مول | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
برقیہ ترتیب | [Rn] 5f3 6d1 7s2 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
برقیے فی غلاف | 2, 8, 18, 32, 21, 9, 2 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
طبیعیاتی خواص | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حالت | solid | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کثافت (نزدیک د۔ ک۔) | 19.1 گ / مک سم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مائع کثافت ن۔پ۔ پر | 17.3 گ / مک سم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
نقطۂ پگھلاؤ | 1405.3 ک (1132.2 س، 2070 ف) | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
نقطۂ ابال | 4404 ک (4131 س، 7468 ف) | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حرارت ائتلاف | 9.14 کلوجول/مول | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حرارت تبخیر | 417.1 کلوجول/مول | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حرارت گنجائش | (25 س) 27.665 جول/مول/کیلون | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
جوہری خواص | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قلمی ساخت | orthorhombic | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تکسیدی حالتیں | 3+,4+,5+,6+[1] (weakly اساس oxide) | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
برقی منفیت | 1.38 (پالنگ پیمانہ) | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آئنسازی توانائیاں | اول: 597.6 کلوجول/مول | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
دوئم: 1420 کلوجول/مول | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
نصف قطر | 175 پیکومیٹر | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وانڈروال نصف قطر | 186 پیکومیٹر | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
متفرقات | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
مقناطیسی ترتیب | paramagnetic | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
برقی مزاحمیت | (0 س) 0.280 µΩ·m | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حر ایصالیت | (300 ک) 27.5 و / م / ک | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حرپھیلاؤ | (25 س) 13.9 µm / م / ک | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
رفتار آواز (باریک سلاخ) | (20 س) 3155 م/سیکنڈ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ینگ معامل | 208 گیگاپاسکل | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
معامل قص | 111 گیگاپاسکل | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
معامل حجم | 100 گیگاپاسکل | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پوئسون نسبت | 0.23 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
سی اے ایس عدد | 7440-61-1 | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
منتخب ہم جاء | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حوالہ جات |
یہ بہت سخت، بھاری اور چاندی جیسی دھات ہے جس کا جوہری عدد 92 ہے۔ یہ 1789ء میں Martin Klaproth نامی ایک جرمن کیمیا دان نے دریافت کی تھی۔ اس نے اسے پچ بلنڈی سے الگ کیا تھا۔ یہ پچ بلنڈی چیک ریپبلک کی Joachimsal کی چاندی کی کانوں سے حاصل کی گئی تھی۔ اس نے اس نئی دھات کا نام نئے دریافت شدہ سیارے یورینس کے نام پر Uran رکھا۔ یہ سیارہ محض آٹھ سال پہلے ہی دریافت ہوا تھا۔ یورینیئم پچ بلنڈی کے علاوہ کارنوٹائٹ اور یُرے نائٹ میں بھی ملتا ہے۔
ہمارے نظام شمسی (solar system) میں یورینیئم بظاہر 6.6 ارب سال پہلے ایک سوپر نوا (supernova) کے پھٹنے سے وجود میں آیا تھا۔ اس وقت سورج اور نظام شمسی وجود میں نہیں آئے تھے۔ اگرچہ یہ نظام شمسی میں بہت وافر نہیں ہے پھر بھی اس کی تابکاری زمین کے اندر گرمی پیدا کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ تابکاری کے باعث ایک ٹن یورینیئم سے اعشاریہ ایک واٹ کی گرمی خود بخود نکلتی ہے جو کرہ ارض کو گرم کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسی گرمی سے continental plates سرکتی ہیں، زلزے آتے ہیں اور کرہ ارض کے بہت اندر convection کرنٹ بہتے ہیں۔ قدرتی یورینیئم میں اتنی تابکاری ہوتی ہے کہ فوٹو گرافی کی فلم کو لگ بھگ ایک گھنٹے میں روشن (expose) کر دیتی ہے۔
یورینیئم نایاب نہیں
سطح زمین کی قدرتی چٹانوں میں بہتات کے اعتبار سے یورینیئم قدرتی عناصر میں اڑتالیسویں نمبر پر ہے۔ یعنی یہ اتنا بھی نایاب نہیں ہے جتنا سمجھا جاتا ہے۔ بہتات کے اعتبار سے یہ سونے کے مقابلے میں 500 گنا، چاندی سے 40 گنا، پارے سے 25 گنا اور قلعئ (tin) سے دگنا زیادہ ملتا ہے۔
یورینیئم جست (زنک)، بورون، اینٹیمنی اور کیڈمیم سے زیادہ وافر ہے۔ سمندر کے ایک ٹن پانی میں تقریباً 3 ملی گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ زیادہ تر چٹانوں میں ایک ٹن میں دو سے چار گرام یورینیئم موجود ہوتا ہے۔ یورینیئم دنیا میں اتنا ہی ملتا ہے جتنا کہ آرسینک، قلعی، ٹنگسٹن اور مولیبڈینیئم۔ اگر یورینیئم کی قیمت کچھ زیادہ بڑھ جائے تو سمندر کے پانی سے یورینیئم نکالنا سودمند ہو سکتا ہے۔
یہ کثافت اضافی میں تقریباً سونے کے برابر ہے یعنی تقریباً 19 گرام فی مکعب سینٹی میٹر۔ اس طرح یہ سیسے سے 1.6 گنا زیادہ بھاری ہے اور یہ دنیا کی آٹھویں بھاری ترین شے ہے۔ یہ 1132 ڈگری سنٹی گریڈ پر پگھلتا ہے اور 3818 پر ابلتا ہے۔
استعمال
صرف ایک ٹن قدرتی یورینیئم سے چار کروڑ کلو واٹ آور بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اتنی ہی بجلی پیدا کرنے کے لیے سولہ ہزار ٹن کوئلہ یا 80 ہزار بیرل تیل جلانا پڑتا ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً 442 جوہری بجلی گھر 59 ممالک میں کام کر رہے ہیں اور دنیا میں استعمال ہونے والی بجلی کا تقریباً23% پیدا کر رہے ہیں۔ ان میں سے 104 امریکہ میں ہیں اور امریکی ضرورت کا 20% مہیا کر رہے ہیں۔ امریکی بجلی کا دس فیصد حصہ روس کے ان پرانے ایٹم بموں سے حاصل کردہ یورینیئم سے بنتا ہے جنہیں معاہدے کے تحت ناکارہ کر دیا گیا تھا۔ ایٹم بم میں تقریباً پندرہ کلو گرام یورینیئم 235 ہوتا ہے جس کی افزودگی 90% سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
سطح زمین اور سمندر میں اتنا قدرتی یورینیئم موجود ہے جو دنیا بھر کی بجلی کی ضرورت کو کئی صدیوں تک پورا کر سکتا ہے۔
جوہری بجلی گھر کی بجلی کو “صاف ستھری” بجلی مانا جاتا ہے کیونکہ ان کے استعمال سے امریکا میں فضا میں کاربن کے اخراج میں 1981 سے 1994 کے دوران 90% کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے برعکس fossil fuel مثلا کوئلہ تیل اور قدرتی گیس جلانے سے ہر سال 25 بیلین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے جو فضا میں جا کر greenhouse effect کے تحت دنیا کو گرم کرنے (global warming) کا بڑا سبب بنتی ہے۔
ساری دنیا کے جوہری بجلی گھر مل کر جتنا فضلہ (waste) پیدا کرتے ہیں وہ ایک ایسی دو منزلہ عمارت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے جو ایک باسکٹ بال کے میدان کے برابر زمین پر بنی ہو۔
جوہری بجلی گھر میں یورینیئم کے ایک ٹکڑے کو تقریباً 18 مہینوں تک بجلی پیدا کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کا کچھ حصہ پلوٹونیم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پلوٹونیم بھی نویاتی اسلحہ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔
1967ء میں امریکی جوہری ہتھیاروں کی تعداد 32000 سے کچھ زیادہ تک پہنچ گئی تھی۔ اس کے جواب میں روس نے 1988ء تک 45000 جوہری ہتھیار بنائے تھے۔ آج ان کی تعداد بہت کم کی جا چکی ہے۔
ملک کا نام | جوہری ہتھیاروں کی تعداد[2] |
---|---|
روس | 4477 |
امریکا | 3708 |
فرانس | 290 |
چین | 350 |
برطانیہ | 180 |
پاکستان | 165 |
بھارت | 160 |
اسرائیل | 90 |
شمالی کوریا | 20 |
مزید دیکھیے
حوالہ جات
- ↑ The Chemistry of the Actinide and Transactinide Elements: Third Edition by L.R. Morss, N.M. Edelstein, J. Fuger, eds. (Netherlands: Springer, 2006.)
- ↑ Animated Chart: Nuclear Warheads by Country (1945-2022)
بیرونی روابط
- بغلچور۔ پاکستان میں یورینیئم کی کان۔ بی بی سی اردو
- ایٹمی فضلہ تلف کرنا ایک درد سر۔ بی بی سی اردو
- [1]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ ead.anl.gov (Error: unknown archive URL)
- [2]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ uic.com.au (Error: unknown archive URL)