شانتی رنجن بھٹاچاریہ

بنگالی النسل بھارتی اردو زبان کے عالم، محقق اور ادیب

شانتی رنجن بھٹاچاریہ (24 ستمبر 1930ء – 15 ستمبر 1993ء) اردو زبان کے ممتاز بنگالی نژاد عالم، محقق اور ادیب تھے۔ انھوں نے اردو اور بنگالی زبانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی اور دونوں کے ادبی رشتے کو مضبوط کیا۔ بھٹاچاریہ نے اردو ادب میں بنگالیوں کے کردار پر بھی خامہ فرسائی کی، چنانچہ ان کی تحقیقی کتاب ”بنگالی ہندوؤں کی اردو خدمات“ پر انھیں سنہ 1966ء میں مغربی بنگال کی حکومت کی جانب سے رابندر پرسکار کے ادبی اعزاز سے نوازا گیا۔[1]

شانتی رنجن بھٹاچاریہ
(بنگالی میں: শান্তিরঞ্জন ভট্টাচার্য ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 29 ستمبر 1930ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فرید پور ضلع   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 ستمبر 1993ء (63 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کولکاتا   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (29 ستمبر 1930–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ عالم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان بنگلہ   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان بنگلہ ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

پیدائش اور ابتدائی زندگی

ترمیم

شانتی رنجن بھٹاچاریہ 24 ستمبر 1930ء کو برطانوی ہندوستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے ضلع فرید پور کے گاؤں مَسُورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بیکنتھ ناتھ بھٹاچاریہ حیدرآباد کی نظام ریاست ریلوے میں ملازم تھے، جبکہ والدہ چاروبالا دیوی گھریلو خاتون تھیں۔ سنہ 1937ء میں وہ اپنے والد کے کام کی وجہ سے اردو زبان کے مرکز حیدرآباد چلے گئے۔ شانتی رنجن کی تعلیم نظام شہر (حیدرآباد) میں ہی ہوئی۔ انھوں نے حیدرآباد کے جڑواں شہر سکندرآباد کے محبوب کالج ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور ہاسٹل میں رہتے تھے۔ یہیں انھوں نے اردو زبان میں مہارت حاصل کی۔ طالب علمی کے دور میں وہ مقامی مصنفین کی محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اسی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد انھوں نے اردو میں لکھنا شروع کیا۔

20 سال کی عمر میں وہ تلنگانہ عوامی انقلاب کی تحریک میں شامل ہو گئے۔ اسی تحریک کے پس منظر میں انھوں نے اردو میں اپنا پہلا ناول ”دھرتی سے آکاش تک“ لکھا، جو بمبئی کے ایک اردو روزنامے میں ایک سال تک قسط وار شائع ہوتا رہا۔ سنہ 1953ء میں وہ حیدرآباد کے ایک روزنامے کے لیے باقاعدگی سے کالم لکھنے لگے۔ لیکن سنہ 1956ء میں والد کی وفات کے بعد جستجوئے روزگار میں وہ کلکتہ منتقل ہو گئے۔

پیشہ ورانہ زندگی

ترمیم

شانتی رنجن بھٹاچاریہ کلکتہ پہنچنے کے بعد اردو ہفتہ روزہ اخبار ”فلم ویکلی“ کے مرتب (ایڈیٹر) کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں اور تقریباً دو سال تک یہ کام کیا۔ سنہ 1965ء میں انھیں مغربی بنگال حکومت کے محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں اردو مترجم اور انگریزی پروف خواں کی نوکری ملی، جہاں سے وہ سنہ 1988ء میں سبکدوش ہوئے۔ اس دوران سنہ 1974ء سے چار سال تک انھیں ڈیپوٹیشن پر بھارتی حکومت میں اسسٹنٹ انفارمیشن آفیسر سمیت کئی اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔

ادبی تخلیقات

ترمیم

حکومتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ، شانتی رنجن بھٹاچاریہ نے ادبی تخلیقات کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا پہلا افسانہ مجموعہ ”راہ کا کانٹا“ سنہ 1960ء میں شائع ہوا۔ ان کی زیادہ تر کتابیں اردو زبان و ادب کے موضوعات پر مرکوز تھیں۔ اردو اور بنگالی کے درمیان ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے، انھوں نے اردو سیکھنے کی کتابیں لکھیں، اردو سے بنگالی تراجم کیے اور بنگالی کتابوں کو اردو قالب میں ڈھالا۔ اردو ادب میں بنگالیوں کے کردار پر ان کی معروف تحقیقی کتاب ”بنگالی ہندوؤں کی اردو خدمات“ سنہ 1963ء میں منظر عام پر آئی۔ ان کی تصانیف اور تراجم کی تفصیل:

افسانہ مجموعے
  • راہ کا کانٹا (1960ء)
  • شاعر کی شادی
  • منزل کہاں تیری
  • زمین سے آسمان تک
زبان و ادب کی کتابیں
  • اردو سے بنگالی سیکھو
  • اردو اور بنگال
  • آزادی کے بعد مغربی بنگال میں اردو
  • بنگال میں اردو زبان و ادب
  • غالبؔ اور بنگال
  • اقبال، ٹیگور اور نذرُل (تین شاعر – ایک مطالعہ)
  • بنگالی کا آسان قاعدہ
  • بنگال میں اردو کے مسائل
  • اردو ادب اور بنگالی کلچر
  • بنگال کی زبانوں سے اردو کا رشتہ
  • ربندر ناتھ ٹھاکر: حیات و خدمات
بنگالی سے اردو تراجم
اردو سے بنگالی تراجم
  • ময়লা চাদর میلا چادُر (راجندر سنگھ بیدی کے اردو ناول ”ایک چادر میلی سی“ کا ترجمہ)
بنگالی زبان میں تصانیف
  • তেলেঙ্গানার গল্প (تلنگانار گولپو، یعنی تلنگانہ کی کہانیاں)
  • উর্দু প্রেমী সুনীতিকুমার চ্যাটার্জী (اردو پریمی شُنیتی کومار چیٹرجی گولپو، یعنی اردو کے عاشق سنیتی کمار چٹرجی کی داستان)
دیگر
  • پختونستان کا مطالبہ

ان کی کتابیں کلکتہ یونیورسٹی کے اردو ایم اے کے نصاب کا حصہ تھیں۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (دہلی) میں ایم فل کے طلبہ کے امتحانی پرچوں کے جائزہ کار بھی رہے۔

وفات

ترمیم

شانتی رنجن بھٹاچاریہ 15 ستمبر 1993ء کو کلکتہ میں وفات پا گئے۔

جناب شانتی رنجن بھٹا چاریہ کے انتقال سے اردو زبان اپنے ایک مخلص خادم اور زبردست شیدائی سے محروم ہوگئی وہ موجودہ بنگلہ دیش کے ضلع جیسور میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی تھی مگر کلکتہ ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا وہ عرصہ تک مغربی بنگال کے محکمۂ اطلاعات سے اور کچھ عرصہ تک مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات سے بھی وابستہ رہے، جناب شانتی رنجن بنگالی اور اردو دونوں کے ماہر اور اردو کے ممتاز مصنف تھے۔ انہوں نے بنگلہ ادب کی تاریخ کے علاوہ بنگالی ناولوں کے ترجمے سے بھی اردو کے سرمایہ میں اضافہ کیا، وہ انجمن ترقی اردو کی مجلس عام اور اردو یونیورسٹی کمیٹی کے رکن بھی تھے، بنگال میں اردو کے فروغ اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے قیام میں ان کا بڑا دخل تھا، ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں میر اکیڈمی لکھنؤ اور ساہتیہ اکیڈمی دہلی سے انہیں ایوارڈ بھی ملے، شانتی رنجن جی ہماری مشترکہ تہذیب کے عاشق اور صحیح معنوں میں سیکولر تھے، ہر شخص سے خوش اخلاقی اور گرم جوشی سے ملتے، راقم سے بھی دوبار ملاقات ہوئی تو اپنے خلوص و محبت کا نقش دل پر بیٹھا گئے۔
– ضیاء الحق اصلاحی (اکتوبر 1993ء)

حوالہ جات

ترمیم
  1. অঞ্জলি বসু সম্পাদিত, সংসদ বাঙালি চরিতাভিধান (بزبان بنگالی), দ্বিতীয় খণ্ড, সাহিত্য সংসদ, কলকাতা, জানুয়ারি ২০১৯ পৃষ্ঠা ৩৮২,৩৮৩ ISBN 978-81-7955-292-6