ایودھیا تنازع
ایودھیا تنازع ایک سیاسی، تاریخی اور معاشرتی کے علاوہ مذہبی بحث ہے جو بھارت میں جاری ہے۔ اس بحث کا مرکزی نقطہ ایودھیا شہر ہے جو اترپردیش کے ضلع فیض آباد میں واقع ہے۔ اس تنازع کے اہم نقاط میں ہندو بھگوان رام کی جائے پیدائش، بابری مسجد کی تاریخ اور اس کا مقام اور یہ بھی کہ آیا یہ مسجد اس جگہ تعمیر کسی مندر کو گرا کر بنائی گئی تھی، شامل ہیں۔
بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992ء کو ایک سیاسی ریلی میں منہدم کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں اس زمین کی ملکیت کے متعلق مقدمہ دائر کر دیا گیا تھا جس کا فیصلہ 30 ستمبر 2010ء کو آیا۔ اس مشہور فیصلے میں عدالت کے تین ججوں نے فیصلہ دیا کہ ایودھیا کی 2.77 ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک تہائی رام للا یعنی شیر خوار رام کو دی جائے جس کی نمائندگی ہندو مہا سبھا کر رہی تھی، اس جگہ مندر تعمیر ہوگا۔ ایک تہائی زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائے اور باقی حصہ ہندو مذہبی تنظیم نرموہی اکھاڑے کو دی جائے۔ تین ججوں نے اس پر متفقہ فیصلہ نہیں دیا تھا کہ یہ مسجد مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی۔ تاہم اس بات پر سبھی جج متفق تھے کہ اس جگہ پہلے ایک مندر یا مندر نما کوئی عمارت یہاں موجود تھی۔[1] انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ کے سروے کی کھدائی سے ملنے والے نمونوں سے یہاں مندر کی موجودگی پر زور دیا گیا تھا۔[2][3][4][5][6]
مذہبی پسِ منظر
ترمیمرام جنم بھومی
ترمیمایودھیا تنازع اس زمین کے متعلق ہے جسے ہم آج رام جنم بھومی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اس جگہ 1528ء میں بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ رامائن کے مطابق ایودھیا میں ہندو بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی جو ایودھیا کے راجا دشرتھ اور رانی کوشلیا کے بیٹے تھے۔ بہت سے ہندو انھیں وشنو کا اوتار مانتے اور پوجا کرتے ہیں۔
ہندو مذہبی تحریر گروڑ پران کے مطابق موکش کے لیے سات جگہوں میں سے ایک جگہ ایودھیا بھی ہے۔ موکش پیدائش اور وفات کے چکر سے نجات کا نام ہے۔[7]
بابری مسجد
ترمیم1525ء میں مغل بادشاہ بابر نے شمالی ہندوستان پر حملہ کیا اور اس کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ اس کا ایک سالار میر باقی 1528ء میں ایودھیا آیا اور ہندو عقیدے کے مطابق یہاں موجود مندر کو ڈھا کر[8] اس کی جگہ مسجد تعمیر کی جسے بعد میں مسجدِ جنم استھان اور بابری مسجد کے نام سے جانا گیا۔[9] بابری مسجد اُترپردیش کی عظیم ترین مساجد میں سے ایک تھی۔ اترپردیش میں مسلمانوں کی خاصی آبادی ہے۔[10] کہا جاتا ہے کہ مسلمان اور ہندو یہاں عبادت کے لیے آتے تھے اور مسلمان مسجد کے اندر جبکہ ہندو مسجد کے باہر احاطے میں عبادت کرتے تھے۔ جب برطانیہ نے اس ریاست پر قبضہ کیا تو انھوں نے دونوں کے درمیان میں جنگلہ لگا دیا تاکہ تنازعات نہ ہوں۔[11]
تاریخی پس منظر
ترمیمگپت دور
ترمیم600 قبل مسیح یعنی گوتم بدھ کے دور میں ایودھیا کو سکیتہ کہتے تھے اور یہ شمالی ہندوستان کے چھ بڑے شہروں میں سے ایک تھا۔ گپت دور میں کمار گپت یا سکند گپت نے اسے اپنا دار الحکومت بنایا اور اس کا نام ایودھیا رکھا گیا۔ کالی داس نے رگھوونش یہیں لکھی اور اسے گوپراتر تیرتھ یعنی گپتر گھاٹ کہا۔ رام کے بارے خیال تھا کہ وہ اسی جگہ سے سریو کے پانی میں داخل ہو کر آسمانوں کو گئے۔ مقامی روایات کو فرانسز بچانن اور الیگزندر کنگم نے لکھا کہ رام کے جانے کے بعد ایودھیا اجڑ گیا اور وکرمادتیہ نے اسے دوبارہ آباد کیا۔ چندر گپت دوم کی بیٹی بربھوتی گپتا بھی رام کی پیروکار تھی۔ اس کا بیٹا پراورسینا دوم نے سیتبو بندھ میں لکھا کہ رام کو وشنو سمجھا جاتا تھا۔ اس نے پراورپور میں رام کا مندر 450 عیسوی میں بنایا تھا۔[12]
گاہاداوالا دور
ترمیمگپتا عہد کے بعد شمالی ہندوستان کا دار الحکومت قنوج کو منتقل ہو گیا اور ایودھیا نظر انداز کر دیا گیا۔ گاہادوالا جب گیارہویں صدی عیسوی میں برسرِا قتدار آئے تو انھوں نے ایودھیا پر پھر توجہ دی۔ یہ خاندان وشنوداس تھا۔ انھوں نے ایودھیا میں وشنو کے بہت سارے مندر بنائے جن میں پانچ اورنگ زیب کے عہد تک باقی تھے۔[13] ماہرین ہندویات ہانس ٹی بیکر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہاں رام کی پیدائش کے مقام پر مندر کا ہونا ممکن ہے۔[14]:91[حواشی 1] آگے چل کر رام کے پیروکار وشنو مت میں بدل گئے کہ رام وشنو کا موجودہ اوتار ہیں۔ اس لیے ایودھیا میں عبادت کے لیے سفر کو ترویج ملی۔
مغل عہد
ترمیمموجودہ دور میں مسجد کے بارے سوچا جاتا تھا کہ وہ رام کی جائے پیدائش پر بنی تھی جو ایودھیا کے و سط میں ایک بڑے ٹیلے پر تھی۔ اسے رام دروگ یا رام کوٹ یعنی رام کا قلعہ کہا جاتا تھا۔ مسجد پر تختی لگی ہے کہ اسے 1528 عیسوی میں میر باقی نے بابر کے احکامات پر تعمیر کرایا تھا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں مولوی عبد الغفار کی تحریر اور اس دور کے دیگر متون کے تحقیقی جائزے سے مؤرخ ہرش نرائن نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نوجوان بابر قلند کے بھیس میں کابل سے اودھ (ایودھیا) شاید حقائق کا جائزہ لینے آیا تھا۔ یہاں اس کی ملاقات صوفی بزرگ شاہ جلال اور سید موسیٰ سے ہوئی اور ان سے ہندوستان کی فتح مانگی۔ عبد الغفار کی کتاب میں 1981ء کے ایڈیشن میں درج تھا بابر نے ہندوستان کی فتح کے بعد یہاں مسجد کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا۔ اصل کتاب کو مولوی عبد الکریم نے فارسی میں لکھا تھا جو سید موسیٰ کے روحانی سلسلے کا ایک رکن تھا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ اور حواشی اس کے پوتے مولوی عبد الغفار نے لکھے۔ عبد الغفار کی پرانی کتاب میں زیادہ تفصیل تھی جو 1981ء کے ایڈیشن میں کم کر دی گئی۔ ایودھیا کے لالہ سیتا رام کے پاس اس کتاب کا 1932ء والا ایڈیشن موجود ہے، نے لکھا، ‘فقیر نے اسے ہندوستان کی فتح کا وعدہ کیا اور کہا کہ بدلے میں اسے جنم استھان مندر کو ڈھا کر وہاں مسجد بنائی جائے۔ بابر نے اسے قبول کر لیا اور اپنے وطن لوٹ گیا۔‘
بابر کا قلندر کے روپ میں ہندوستان آنے کا تذکرہ ہمیں عبد للہ کی کتاب تاریخِ داؤدی میں بھی ملتا ہے جس میں یہ بھی درج ہے کہ بابر کی ملاقات سلطان سکندر لودھی سے دہلی میں اسی روپ میں ہوئی تھی۔ بابری مسجد کی تختی پر اسے بابر قلندر لکھا گیا ہے۔ سید موسیٰ کی قبر بھی بابری مسجد کے قریب بنی ہوئی ہے اور ان کے مزار کے دو ستون ویسے ہی کالے بسالٹ سے بنائے گئے ہیں جو بابری مسجد کی تعمیر میں بھی استعمال ہوئے تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید موسیٰ یہاں پہلے سے موجود مندر کی تباہی کے کچھ ذمہ دار تھے۔
مسجد کی تختی پر درج ہے کہ یہ مسجد بابر کے احکامات پر 1528ء میں تعمیر کی گئی اور اُس دور کی دیگر تحاریر سے مسجد کے بارے کوئی ذکر نہیں ملتا۔
بابر نامہ میں بھی نہ تو مسجد کا تذکرہ ملتا ہے اور نہ مندر کو ڈھانے کا۔ تلسی داس نے رامچریت مناس کوایودھیا میں تحریر کرنا شروع کیا۔ اس نے یہ کام رام کے جنم دن کو 1574ء میں شروع کیا مگر اس نے جنم استھان پر مسجد کے حوالے سے کچھ نہ کہا۔ وہ اپنے شہر ونارسی سے رام کے جنم دن کے بہت بڑے میلے میں شرکت کے لیے آیا تھا۔ ابوالفضل ابن مبارک (1551ء–1602ء) نے اکبر نامہ کی تیسری جلد آئینِ اکبری کو 1598ء میں مکمل کیا اور ایودھیا میں رام کی رہائش گاہ اور قدیم مقدس مقام کا تو تذکرہ کیا ہے مگر مسجد کے بارے کوئی بات نہیں کی۔ انگریز سیاح ولیم فنچ نے 1611ء میں ایودھیا کی سیاحت کی اور رانی چند کے گھروں اور قلعے کی حالتِ زار کے بارے لکھا کہ اس جگہ ہندو عقائد کے مطابق عظیم خدا نے گوشت پوست کا روپ اختیار کیا تاکہ دنیا کا تماشا دیکھ سکے۔ اس نے قلعے کے کھنڈر میں برہمن پجاری بھی دیکھے جو یاتریوں کے نام لکھ رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ روایت قدیم دور سے چلی آ رہی ہے۔ تاہم اس نے بھی مسجد کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
مغل دور کا اواخر
ترمیممسجد کے بارے پہلی اطلاع صحیفہ چہل نصائحِ بہادر شاہی نامی کتاب میں ملتی ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بہادر شاہ کی بیٹی نے لکھا تھا۔ یہ شہزادی اورنگزیب کی پڑپوتی تھی۔ یہ کتاب سترہویں صدی میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں درج ہے کہ متھرا، بنارس اور اودھ وغیرہ میں مشرک ہندو بت پرستوں کے مندروں کو توڑ کر مساجد بنائی گئی ہیں۔ اودھ میں تباہ ہونے والے مندر کو ہندو سیتا رسوئی اور ہنومان کی قیام گاہ کہتے ہیں۔ اس کتاب میں بابر کا تو کوئی تذکرہ نہیں ملتا مگر ایودھیا کی مسجد کو اورنگ زیب کی بنائی ہوئی متھرا اور بنارس کی دیگر مساجد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
جئے سنگھ دوم (1688–1743) جو سوائی جئے سنگھ کے نام سے بھی مشہور ہے، نے شمالی ہندوستان میں ہندو مت کے تمام اہم مقامات پر زمین خرید کر جئے سنگھ پور بنائے۔ ان میں متھرا، ورندون، بنارس، الہ آباد، عجائن اور ایودھیا بھی شامل تھے۔ ان سرگرمیوں کی تفصیلات جئے پور کے عجائب گھر میں دستاویزی شکل میں محفوظ ہے۔ پروفیسر ناتھ نے ان دستاویزات کا مطالعہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جئے سنگھ نے رام جنم استھان کی زمین کو 1717ء میں خریدا تھا۔ زمین کی ملکیت دیوتا کے نام پر تھی۔ 1717ء سے مغل ریکارڈ میں اسی نام سے اس زمین کا تذکرہ ملتا ہے۔ پروفیسر کو گماشتہ ترلوک چند کا ایک خط بھی ملا ہے جو 1723ء میں لکھا گیا تھا۔ اس میں درج ہے کہ مسلم دور میں ہندو لوگوں کو دریائے سریو میں مذہبی اشنان سے منع کر دیا گیا تھا اور یہ بھی کہ جئے سنگھ پور کے قیام سے یہ پابندی بھی ہٹ گئی۔
ایک مسیحی کیتھولک مبلغ جوزف ٹیفنتھلر نے ایودھیا کا چکر 1766–1771ء میں لگایا تھا۔ اس نے لکھا کہ شہنشاہ اورنگزیب نے رام کوٹ کے قلعے کو گرا کر اسی جگہ مسلم عبادت گاہ بنائی جس کے تین گنبد تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مسجد بابر نے بنوائی تھی۔ اس کے 14 کالے ستون ہیں جو قلعے کی تباہی سے بچ گئے تھے۔ ان میں سے بارہ اب مسجد کی عمارت کو سہارا دے رہے ہیں۔ اورنگزیب اور بابر کے نام کی الجھن کافی اہم ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ یہاں ہندو پانچ انچ اونچے مربع ڈبے کی عبادت کرتے ہیں جو زمین سے اوپر نکلا ہوا ہے۔ اس کو پنگوڑا کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ایک بار وشنو رام کی شکل میں پیدا ہوئے تھے۔ اس نے بتایا کہ یہاں ہر سال رام کا جنم دن منایا جاتا ہے اور یہ تہوار پورے ہندوستان میں مشہور ہے۔
تنازعے کی ابتدا
ترمیمایودھیا میں پہلے پہل مذہبی فساد کی خبر 1850ء کی دہائی سے ملتی ہے۔ یہ فساد ہندومان کی گڑھی کے پاس ایک مسجد سے متعلق تھا۔ اس دوران میں ہندوؤں نے بابری مسجد پر حملہ کیا۔ تب سے مقامی ہندو گروہ وقتاً فوقتاً اس مسجد کی اراضی کی ملکیت کا مطالبہ کرتے آئے ہیں اور یہاں مندر کی تعمیر کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں، مگر انگریز حکومت نے ہمیشہ انکار کیا۔ 1946ء میں ہندو مہاسبھا کی ایک شاخ اکھل بھارتیہ رامیانہ مہاسبھا (ABRM) نے اس اراضی کی ملکیت کے لیے احتجاج شروع کیا۔ 1949ء میں گورکھ ناتھ مت کے سنت دیگ وجے ناتھ نے اس احتجاج میں شمولیت اختیار کی اور رام چریت منا کو نو روز پڑھا۔ اس کے اختتام پر ہندوؤں نے مسجد پر حملہ کر کے وہاں رام اور سیتا کی مورتیاں رکھ دیں۔ پھر لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ یہ بت مسجد کے اندر خود بخود نمودار ہوئے۔ یہ واقعہ 22 دسمبر 1949ء کو ہوا۔
جواہر لعل نہرو نے مسجد سے ان مورتیوں کو ہٹانے پر زور دیا مگر مقامی افسر کے کے کے نیئر جو انتہا پسند ہندوؤں کے قریب تھا، نے احکامات ماننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس طرح فرقہ ورانہ فسادات شروع ہو جائیں گے۔ پولیس نے اس جگہ کو عوام (بشمول ہندو اورمسلمان) کے لیے بند کر دیا۔ تاہم مورتیاں اندر موجود رہیں اور پجاری ہر روز جا کر پوجا کرتے تھے۔ اس طرح مسجد خود بخود مندر بن گئی۔ سنی وقف بورڈ اور اے بی آر ایم نے عدالت میں مقدمات دائر کر دیے کہ یہ اراضی ان کی ملکیت ہے۔ زمین کو متنازع قرار دے کر بند کر دیا گیا۔
کرسٹوفر جیفرلوٹ نے گورکھا ناتھ کو ہندو قوم پرست جماعت کی ایک شاخ قرار دیا جو سنگھ پریوار کے ساتھ ساتھ الگ قائم تھی۔ 1964ء میں وشو ہندو پریشد کے قیام اور اس کی طرف سے بابری مسجد کے مقام پر تنازعے کو ہوا دینے کے بعد زعفرانی سیاست کی یہ دونوں شاخیں ایک ہو گئیں۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نیئر، جس نے نہرو کے احکامات ماننے سے انکار کیا تھا، کو ملازمت سے ہٹا دیا گیا مگر اسے مقامی ہیرو کا درجہ مل گیا اور بھارتیہ جنا سنگھ کا سیاست دان بن گیا۔
بابری مسجد کا انہدام
ترمیم1980ء میں وشو ہندو پریشدنے جو ہندو قوم پرست جماعت سنگھ پریوار کی ایک شاخ ہے، اس جگہ کو ہندوؤں کو دلانے کی تحریک شروع کی تاکہ یہاں نوزائیدہ رام کا مندر بنایا جا سکے۔ 1980ء میں جَن سَنگھ کی باقیات سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی تشکیل ہوئی اور اس تحریک کا سیاسی چہرہ بنی۔ 1986ء میں ایک ڈسٹرکٹ جج نے حکم دیا کہ دروازے کھول کر ہندوؤں کو مسجد میں عبادت کرنے دی جائے جس سے تحریک کو تقویت پہنچی۔ ستمبر 1990ء میں بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے ایودھیا تنازع کو لے کر رتھ یاترا شروع کرائی تاکہ اس تحریک کو مزید طاقت دی جا سکے۔ ایڈوانی نے بعد میں اپنی یاداشتوں میں لکھا، ‘اگر مسلمانوں کو مکہ میں اور مسیحیوں کو ویٹی کن میں اپنا مذہبی مرکز قائم کرنے کی اجازت ہے تو ایودھیا میں ہندوؤں کو کیوں منع کیا جائے؟‘۔ اس یاترا کی وجہ سے کئی شہروں میں فسادات ہوئے اور آخرکار بہار کی حکومت نے ایڈوانی کو گرفتار کر لیا۔ اس کے باوجود بہت سارے کار سیوک ایودھیا پہنچ گئے اور مسجد پر حملے کی کوشش کی۔ انھیں اتر پردیش کی پولیس اور نیم فوجی دستوں نے روک دیا اور اس کشمکش میں کئی کار سیوک مارے گئے۔ وی پی سنگھ کی مرکزی حکومت کو کمزوری کا طعنہ دے کر بی جے پی نے اترپردیش کی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی اور لوک سبھا میں بھی ان کی تعداد بڑھ گئی۔
6 دسمبر 1992ء کو وشو ہندو پریشد اور اس کی حامی جماعتوں بشمول بی جے پی نے ایک ریلی کا انعقاد کیا جس میں وشو ہندو پریشد اور بی جے پی کے ڈیڑھ لاکھ ارکان جمع ہوئے۔ رسومات میں بی جے پی کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی وغیرہ جیسے رہنماؤن نے تقاریر کیں۔ تقاریر سے مجمعے میں اشتعال بڑھتا گیا اور آخر مسجد پر حملہ کر دیا گیا۔ پویس کی نفری بہت کم تھی۔ کارسیوکوں نے مختلف آلات استعمال کرتے ہوئے چند گھنٹوں میں مسجد کو منہدم کر دیا۔ ریاستی حکومت سپریم کورٹ میں یہ عہد کر چکی تھی کہ مسجد کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ انہدام کے بعد فسادات میں 2٫000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ ممبئی، بھوپال، دہلی اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں بھی فسادات پھوٹ پڑے۔
16 دسمبر 1992ء کو ہندوستان کی حکومت نے لب رہان کمیشن تشکیل دیا جو بابری مسجد کے انہدام سے متعلق حالات کا جائزہ لیتا۔ مختلف حکومتوں سے توسیع کے بعد یہ ہندوستان کی تاریخ کا طویل ترین کمیشن بن گیا۔ اس کی رپورٹ میں بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اُس وقت اترپردیش کے وزیرِ اعلیٰ کلیان سنگھ، پرمود مہاجن، اوما بھارتی، وجے راجے سندھیا کے علاوہ وشو ہندو پریشد کے گریراج سنگھ کشور اور اشوک سنگھل کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ رپورٹ میں دیگر اہم رہنماؤں میں شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اور سابقہ آر ایس ایس کے رہنما گوند اچاریہ کو بھی شامل کیا گیا۔ بہت سارے گواہوں کی شہادتوں کے مطابق رپورٹ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بہت سارے رہنماؤں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں جس کی وجہ سے مسجد منہدم ہوئی۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر وہ انہدام کو روکنا چاہتے تو روک سکتے تھے۔
اس واقعے پر بہت ساری مسلم تنظیموں نے احتجاج کیا۔ جولائی 2005ء کو نامعلوم افراد نے اس مقام پر بنے ہوئے مندر کو تباہ کر دیا۔ 2007ء میں گوپال داس جو اُس وقت رام مندر کا مہاپجاری تھا، کو فون پر قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ کئی ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں نے بابری مسجد کی تباہی کو وجہ بنا کر حملے کیے۔ اس جگہ کی ملکیت کی قانونی جنگ جاری ہے۔
ابتدائی تاریخی سروے
ترمیم1767ء میں مسیحی مبلغ جوزف ٹیفنتھلر نے لکھا کہ مسجد کے مقام پر ہندو پوجا کر رہے تھے اور رام نوامی کا جشن منا رہے تھے۔ 1788ء میں اس کی فرانسیسی کتاب جو پیرس میں شائع ہوئی، نے بتایا کہ اس جگہ مغل شہنشاہ اورنگزیب نے رام کوٹ کے قلعے کو تباہ کر کے مسجد بنائی جس کے تین گنبد تھے۔ 1707ء میں اورنگزیب کی وفات کے بعد ہندوؤں نے اس جگہ پر قبضے کے لیے کئی جنگیں کیں۔
اٹھارویں صدی کے دوران میں ایودھیا میں ہندو روایتی طور پر رام کوٹ پہاڑی پر پوجا کرتے رہے۔ برطانوی ذرائع کے مطابق فیض آباد کے ہندو اور مسلمان مسجد کے مقام پر 1855ء تک عبادت کرتے رہے۔ کارنیگی نے 1870ء میں لکھا:
‘کہا جاتا ہے کہ ہندو مسجد کے احاطے اور مسلمان مسجد کے اندر عبادت کرتے رہے تھے۔ برطانوی راج میں جنگلہ لگا دیا گیا تاکہ لڑائی نہ ہو۔ ہندوؤں نے یہاں چبوترا بنایا جہاں چڑھاوے چڑھاتے تھے۔ یہ چبوترا مسجد کے باہر مگر اس کے احاطے میں بنایا گیا تھا۔
1858ء میں بابری مسجد کے مؤذن نے برطانوی حکومت کی پٹیشن میں بتایا کہ احاطے میں ہندو صدیوں سے پوجا کرتے آئے ہیں۔
برطانیہ نے اس مقام پر ہندو مسلم سیاسی اور مذہبی تنازعے کو سمجھ لیا۔ 1869ء میں ایک مردم شماری میں پتہ چلا کہ ایودھیا میں 66.4 جبکہ فیض آباد میں 60 فیصد ہندو آباد ہیں۔ برطانیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ آبادی کے لحاظ سے نہیں بلکہ مذہبی اعتبار یعنی رام کی جائے پیدائش کے اعتبار سے ایودھیا بنیادی طور پر ہندو ہے۔
مہانت رام کیس
ترمیم1885ء میں مہانت رگھوبیر رام نے عدالت میں بابری مسجد کے احاطے سے باہر مندر کی تعمیر کی اجازت مانگی۔ فیض آباد کے ڈسٹرکٹ جج نے اس کے دعوے کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہہ کر مقدمہ خارج کر دیا کہ اس کو بہت وقت ہو گیا ہے۔ 18 مارچ 1886ء کو لکھے گئے عدالتی فیصلے میں درج تھا:
‘میں نے تمام فریقین کی موجودگی میں اس مقام کا دورہ کیا۔ شہنشاہ بابر کی بنائی ہوئی مسجد ایودھیا کی سرحد پر جنوب مغرب میں ہے اور یہاں کوئی آبادی نہیں۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ ہندو مذہبی مقام پر مسجد تعمیر کی گئی ہے مگر چونکہ یہ واقعہ 356 سال پرانا ہے، سو اس پر اب کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ‘
آزادی کے بعد
ترمیمبعد میں فیض آباد میں کئی مساجد بنیں اور ایودھیا اسی ضلع میں واقع ہے۔ ایودھیا میں مسلمانوں کی تعداد کافی کم ہے اور ضلعی صدر مقام یہاں سے سات کلومیٹر دور ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ چونکہ 1949ء سے ہندوستانی حکومت کے حکم کے مطابق مسلمان مسجد سے 200 گز کے قریب نہیں جا سکتے تھے اور مسجد کے صدر دروازے بند تھے، مگر ہندو یاتریوں کو پہلو کے دروازے سے اندر جانے اور پوجا کی اجازت تھی۔ 1986ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے صدر دروازے کھول کر ہندوؤں کو پوجا کی مکمل اجازت دے دی۔ بعد میں ہندو گروہوں نے درخواست کی کہ وہ مسجد میں کچھ تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی نئے مندر کی تعمیر کے لیے منصوبہ بھی پیش کیا۔ نتیجتاً ہندو مسلم فساد شروع ہو گئے۔ تب سے یہ مسئلہ انا، سیاسی، تاریخی اور سماجی و مذہبی بحث کا مرکز بن گیا۔
کھدائی
ترمیممتنازع مقام اور اس کے آس پاس کی کھدائی ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں 1970ء، 1992ء اور 2003ء میں کی گئی۔ ایسے واضح شواہد ملے ہیں کہ اس جگہ ایک بڑا ہندو مندر قائم تھا۔ 2003ء میں ہندوستانی عدالت نے محکہ آثارِ قدیمہ کو حکم دیا کہ وہ مسجد کے نیچے مندر کے حوالے سے نکلنے والی چیزوں کا مزید غور سے معائنہ کرے اور واضح جواب دے کہ آیا مسجد کے نیچے مندر تھا یا نہیں۔ تاہم یہ کہنا مشکل تھا کہ یہ آثار رام مندر کے ہوں گے کیونکہ یہ آثار شیوا مندر سے زیادہ مماثل تھے۔ ماہرین نے یہاں سے نکلنے والی چیزوں کو شمالی ہندوستان کے مندروں کی واضح علامات قرار دیا۔ مزید یہ بھی کہا:
‘پتھر اور منقش اینٹوں، بتوں اور دیگر تعمیراتی خواص بشمول پتوں کی شکل، املاکا، کپوتاپلی، پلستر، ہشت پہلو ستون، کنول کی شکل، گول مندر شمال میں تھے اور 50 ستونوں کی بنیاد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عظیم عمارت رہی ہوگی۔
تاہم آثارِقدیمہ کے شواہد پر فیصلہ ہونے سے قبل کچھ اختلافی آراء تھیں۔ رام کے ایودھیا کی تاریخ کے بارے میں پروفیسر رام شرن شرما نے لکھا، ‘ایودھیا قرون وسطیٰ سے ہندو مذہبی مقام بن کر ابھرا۔ اگرچہ وشنو سمرتی کے 85ویں باب میں ہندو مت کی پوجا کے 52 مقامات بشمول شہر، جھیلیں، دریا، پہاڑ وغیرہ کا تو ذکر ملتا ہے مگر ایودھیا اس فہرست میں شامل نہیں۔ شرما نے یہ بھی لکھا کہ تلسی داس نے 1574ء میں ایودھیا میں "رام چَرِت مانس" لکھی مگر ایودھیا کو یاترا کا مقام نہیں ظاہر کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر کوئی اہم مندر نہیں تھا یا مسجد کی تعمیر سے قبل ختم ہو چکا تھا۔ 1992ء میں مسجد کے انہدام کے بعد پروفیسر رام شرن شرما نے مؤرخین سورج بھان، ایم اطہر علی اور دیوجندرا نرائن جہا کے ساتھ قوم کے نام تاریخ دانوں کے پیغام میں لکھا کہ متنازع جگہ پر مندر ہونے کا خیال غلط ہے اور مسجد کے انہدام کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ 2010ء میں الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک جج نے سُنّی وقف بورڈ کی جانب سے پیش ہونے والے آزاد ماہرین پر بھی تنقید کی جن میں سویرا جسوال، سپریا ورما، شیریں رتناگر اور جیا منون شامل تھے۔ بحث کے دوران میں ان ماہرین کے دلائل غلط ثابت ہوئے۔ جج نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ ان ماہرین کی آرا کے پیچھے کسی قسم کی مناسب تحقیق، تفتیش یا مطالعہ شامل نہیں تھا۔
اُدت راج کی بدھا ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے دعویٰ کیا کہ 2003ء میں ملنے والے آثار دراصل بدھ مت کے ایک ستوپا کے ہیں جو مسلمانوں کے ہندوستان آمد کے سلسلے کے دوران اور اس کے بعد تباہ کیا گیا۔
ملکیتی دعوے
ترمیم1950ء میں گوپال سنگھ وشراد نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک ملکیتی مقدمہ دائر کیا تاکہ متنازع مقام پر پوجا کی اجازت دی جائے۔ ایودھیا کے پرم ہنس داس نے فوراً بعد ایسا ہی ایک مقدمہ دائر کیا مگر اسے بعد میں واپس لے لیا گیا۔ 1959ء میں نرموہی اکھاڑا نامی ہندو مذہبی ادارے نے متنازع اراضی کے انتظام سنبھالنے کے لیے درخواست جمع کرائی۔ چوتھی درخواست مسلم وقف بورڈ نے جمع کرائی اور اس مقام کی ملکیت کا دعویٰ کیا۔ الہ آباد ہائی کورٹ بنچ نے 2002ء میں اس مقدمے کی سماعت شروع کی۔ تاہم اس کا فیصلہ 24 ستمبر تک مؤخر کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے جب ہائی کورٹ بنچ کے فیصلے کو مؤخر کرنے کا مقدمہ خارج کیا تو ہائی کورٹ نے اس فیصلے کے اعلان کے لیے 30 ستمبر 2010ء کی تاریخ مقرر کی۔
30 ستمبر 2010ء کو الہ آباد کی ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ جس میں جسٹس ایس یو خان، سدھیر اگروال اور ڈی وی شرما شامل تھے، نے فیصلہ جاری کیا کہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ رام لالہ کی مورتی والے مقام کو رام لالہ ورجمن کو، سیتا رسوئی اور رام چبوتراکے لیے نرموہی اکھاڑے اور باقی زمین سنی وقف بورڈ کو دے دی جائے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ موجودہ صورت حال تین ماہ تک جوں کی توں برقرار رکھی جائے۔
مزید دیکھیے
ترمیمحواشی
ترمیم- ↑ ہندوستانیات کے ماہر ہانس ٹی بیکر نے پانچ مندروں کا تذکرہ کیا ہے: چکراتریٹھا گھاٹ پر وشنو ہری مندر، گوپراترا گھاٹ پر ہرسمرتی مندر، سوارگدوارا گھاٹ کی مغربی سمت چندر ہری مندر، اسی گھاٹ کے مشرقی سمت درما ہری مندر اور رام جنم بھومی کے مقام پر وشنو مندر۔ ان میں سے ایک کو دریائے سرایو بہا کر لے گیا، ہری سمرتی مندر کے بارے معلومات نہیں ملتیں جبکہ باقی تین بشمول جنم بھومی، پر مساجد بنا دی گئیں۔[15]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ [1] آرکائیو شدہ 6 اکتوبر 2010 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ آر سوریہ مورتے (26 اگست 2003)۔ "ASI findings may not resolve title dispute"۔ دی ٹریبیون۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 فروری 2018
- ↑ Prasannan, R. (7 Sep 2003) "Ayodhya: Layers of truth" The Week (India), from Web Archive
- ↑ "Proof of temple found at Ayodhya: ASI report"۔ Rediff.com۔ 25 اگست 2003۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جون 2012
- ↑ ابھینو گارگ (9 اکتوبر 2010)۔ "How Allahabad HC exposed 'experts' espousing Masjid cause"۔ دی ٹائمز آف انڈیا۔ 04 نومبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 نومبر 2010
- ↑ "Issues For Briefing" (PDF)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (پی ڈی ایف) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2012
- ↑ The Hindu temple, Volume 1 By Stella Kramrisch, Raymond Burnier۔ گوگل بکس۔ 1976۔ صفحہ: 3۔ ISBN 9788120802230۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 اکتوبر 2010
- ↑ "Subject matter of the decided cases" (PDF)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جون 2012
- ↑ سید شہاب الدین عبد الرحمان (1987)۔ Babri Masjid (تیسرا پرنٹ ایڈیشن)۔ Azamgarh: دار المصنفین شبلی اکیڈمی۔ صفحہ: 29–30
- ↑ "Indian Census"۔ Censusindia.gov.in۔ 15 اکتوبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2010
- ↑ van der Veer 1992, pp. 97-98, footnote 25.
- ↑ Jain 2013, pp. 3–5, 94–95.
- ↑ Vasudha Paramasivan (2009)۔ "Yah Ayodhya Vah Ayodhya: Earthly and Cosmic Journeys in the Anand-lahari"۔ $1 میں Heidi R. M. Pauwels۔ Patronage and Popularisation, Pilgrimage and Procession۔ Otto Harrassowitz Verlag۔ صفحہ: 101–116۔ ISBN 3-447-05723-8
- ↑ Hans Bakker (1991)۔ "Ayodhya: A Hindu Jerusalem"۔ Numen۔ 38 (1): 80–109۔ JSTOR 3270005
- ↑ Jain 2013, p. 103 citing Hans Bakker (1986)، Ayodhya, Part 1: The History of Ayodhya from the 7th century BC to the middle of the 18th century، Groningen: Egbert Forsten، صفحہ: 54، ISBN 9069800071