بنو اسد
بنو اسد (انگریزی: Banu Asad ibn Khuzaymah) عرب کا ایک قبیلہ ہے جن کا تعلق بنو عدنان سے ہے۔ بنو اسد عرب کے سب سے مشہور اور طاقتور قبیلوں میں سے ایک ہے۔ کئی قبائل عرب ان کی عزت کرتے ہیں۔شیعہ مسلمان ان کا خوب احترام کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے واقعہ کربلا کے بعد نواسہ رسول حسین بن علی اور ان کے اہل بیت کو حسین بن علی کے بیٹے زین العابدین کے ساتھیوں کی مدد سے دفنایا تھا۔ موجودہ دور میں بنو اسد عرق کئی شہروں میں آباد ہیں مثلاً بصرہ، نجف، کوفہ، کربلا، ناصریہ، العمارہ، کوت العمارہ، حلہ، محافظہ دیالہ اور بغداد وغیرہ۔ بنع اسد کا ایک قبیلہ بنو کاہل سو ڈان میں بھی آباد ہے۔ کسی زمانہ میں انھوں نے حجاز کے سوڈان کی جانب ہجرت کرلی تھی۔ بنو اسد کے کچھ قبائل ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر اہواز میں بھی آباد ہیں جہاں وہ بنو تمیم، بنو مالک، بنو کعب اور عرب کے دیگر نامور قبائل کے قرب و جوار میں رہتے ہیں۔
نسب
ترمیمبنو اسد اسد بن خزیمہ کی اولاد ہیں جن کا لسلہ نسب محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی ملتا ہے۔ نسب نامہ یوں ہے؛
اسد بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن الیاس بن مدر بن نذر بن معد بن عدنان بن عدنان۔۔۔۔ بن نبط بن اسماعیل بن اسماعیل بن ابراہیم۔
موجودہ دور کے بنو اسد مدر کی اولاد ہیں اور یہیں ان کا نسب پیغمبر محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ اس طرح وہ پیغمبر اسلام کے چچا زاد ہوئے۔[1]
قیام امام حسین
ترمیم61ھ میں تحریک امام حسینؑ کے وقت بنی اسد 3 گروہ میں تقسیم ہو گئے: پہلا گروہ: ناصران آنحضرت، دوسرا گروہ: مخالفین آنحضرت اور تیسرا گروہ: غیر جانبدار تھا۔
پہلا گروہ ناصرین آنحضرتؑ: قبیلہ بنی اسد کے سرداروں میں سے جو کربلا میں شہید ہوئے ان میں حبیب بن مظاہر اسدیؑ، انس بن الحرث، کاہل بن اسدی، مسلم بن عوسجہ اسدیؑ، عمرو بن خالد صیداوی اسدیؑ قیس بن مسہر صیداوی اسدیؑ کے نام پائے جاتے ہیں۔
دوسرا گروہ مخالفین آنحضرتؑ: مخالف گروہ کا سردار حرملہ بن کاہل اسدی ہے جس نے روز عاشور امام حسین ؑششماہہ فرزند علی اصغر ؑ کا قتل کیا اسی قبیلہ سے سپاہ یزید میں ازرق بن حرث صیداوی بھی شامل تھا۔
تیسرا گروہ غیر جانبدار: جو نہر علقمہ کے کنارے نیز کربلا کے شمال مشرقی سر زمین کے علاقہ غاضریہ نامی بستی میں سکونت پزیر ہوئے اور روز عاشور غیر جانبدار رہنا پسند کیا، اس گروہ کو خود سید الشہداءؑ و حبیب بن مظاہر اسدیؑ نے مدد کے لیے بلایا لیکن آخری لمحات تک اس قبیلہ کی اکثریت نے ازرق بن حرث صیداوی کے 4000 سپاہیوں کے ڈرانے کی وجہ سے غیر جانبداری کو ہی اختیار کیے رکھا۔
سید الشہداء کے عظیم و با وفا اصحاب کی شہادت کے بعد بنی اسد کے غیر جانبدار گروہ کی خواتین کا گذر میدان جنگ کی طرف سے ہوا تو امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کی نعشوں کے زیر آفتاب جلتی ہوئی سر زمین پر مشاہدہ سے شدت کے ساتھ متأثر ہوئیں اور سرزمین غاضریہ پر غیر جانبدار گروہ کی محل سکونت کی طرف بھاگتے ہوئے گئیں، اپنے مردوں سے شہداء کی لاشوں کو دفن کرنے کے لیے کہا، لیکن اس قبیلہ کے مرد ابن زیاد کے خوف سے لاشوں کو دفن کرنے کے لیے حاضر نہیں ہوئے کہ عملی اقدام کریں، لہذا بنی اسد کی خواتین نے بیلچے پھاؤڑے اور کدال اٹھایا اور کربلا کی سمت روانہ ہوئیں کچھ لمحوں کے بعد قبیلہ کے مردوں کا ضمیر بیدار ہوا تو اپنے قبیلہ کی خواتین کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے اور شہداء کے پیکر مطہر کو امام سجاد ہی کی راہنمائی میں دفن کرنے لگے۔
وراثت
ترمیمچھٹی صدی میں بنو اسد کے کسی شخص نے بنو کندہ کے ایک آدمی کو قتل کر دیا۔ اسی زمانہ کا ایک شاعر امرؤ القیس جو معلقات بھی شاعر ہے اور جسے عربی ادب کا سب سے بڑا شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، کا تعلق بھی بنو اسد سے ہی تھا۔ وہ بنو کندہ کے ایک شخص حجر کے قتل کے درپے رہتا تھا۔ اتفاق سے اسی کے قبیلہ کے کسی آدمی نے اس کا قتل کر دیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Guillaume Ibn Ishaq (1955)۔ The Life of Muhammad: A Translation of Ibn Isḥāq’s sīrat۔ London۔ صفحہ: 3۔ ISBN 0-19-577828-6۔
The Lineage of Muhammad, Asad and Muhammad have same grandfather Khuzaimah