پہلی حُر تحریک 1830ءمیں پیر صبغت اللہ شاہ اول کے دور میں شروع ہوئی، دوسری حُر تحریک (1847ء۔ 1890ء) سید حزب اللہ شاہ تخت دھنی کے دور میں شروع ہوئی، حُر تحریک کا تیسرا مرحلہ 1895ءمیں چلایا گیا جبکہ چوتھے مرحلہ میں پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی المعروف سوریہہ بادشاہ نے 1928ءمیں حُر تحریک کی بنیاد رکھی۔ حروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم جہاد بلند کیا اورسندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں حروں نے بغاوت کی تو انگریزوں نے اسے بڑے بے دردی سے کچل دیا اور سید صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی کو 1943ء میں، پھانسی دے دی گئی۔ ان کے فرزند شاہ مردان شاہ دوم کو تعلیم و تربیت کے لیے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ پیر صاحب قیام پاکستان کے تین سال بعد وطن واپس آئے اور اپنے والد کی مسند پر بیٹھے۔ حروں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی داد شجاعت دی اور سندھ کے محاذ پر دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے۔

حر فورس کا اہلکار
حر فورس کا اہلکار


باب الاسلام وادی مہران کا جنگ آزادی سے لے کر تحریک پاکستان میں بڑا نمایاں کردار رہا۔ ہندو سکھ اور پھر انگریزوں کے خلاف پیران پگارا اور ان کے حر مجاہدین کی ایک صدی پر محیط جہاد مسلسل کو تحریک آزادی سے جدا کرنا لاکھوں شہید حر مجاہدوں کی روحوں کو اذیت دینے کے متردادف ہے۔

  • انگریز کو صوبہ سندھ میں حر تحریک کے خلاف دو مرتبہ مارشل لگانا پڑا مگر حالات سازگار نہ ہو سکے تو حروں کے روحانی پیشوا حضرت سید صبغت اللہ شاہ راشدی ہاشمی حسینی جیلانی کو 20 مارچ 1943ء کو تختہ دار پر لٹکا کر شہادت کے منصب عظیم پر فائز کیا۔ آپ کے گھروں، مدرسوں اور مسجدوں کو ہَوائی حملوں سے تاراج و پامال کر دیا مگر حضرت پیر صاحب پگارو کا مریدوں کو بخشا ہوا جذبہ انگریز کی توپوں اور جہازوں کے بارود کو نامراد کرتا رہا۔ پاکستان 1947ء میں آزاد ہو گیا مگر حُر مجاہدین انگریزی قانون کے تحت مجرم و مفسد ہی بنے رہے۔1952ء میں جب شہید زادوں نے مادر وطن میں قدم رکھا تو اپنے عظیم شہید والد کے جانباز غازیوں، سالاروں اور مجاہدوں پر لگی پابندیوں کو بھی ختم کرایا۔


  • اب حُر جماعت عظمت وطن کی پاسبان اور حورین دین کی نگہبان فورس میں تبدیل ہو چکی تھی۔ عددی اور عسکری برتری کے نشے میں بدمست بھارتی سنہا نے پاک سرزمین کو اپنے ناپاک قدموں تلے روندنے کا خیال خام لے کر جب لا الہ الا اللہ کے حصار میں داخل ہونے کی جسارت کی تو محمد رسول اللہ کے جانثار سامنے چٹان بن کر کھڑے ہو گئے۔ پنجاب کی طویل ترین سرحد کی داستانیں تو زبان زد عام ہیں مگر وادی مہران کی شہادت گاہوں کے قصے ہم تک کم کم پہنچے۔
  • راقم نے باب الاسلام کے عظیم فرزندان کی 1965ء کی جنگ میں کارہائے نمایاں سانگھڑ کے حر مجاہد مصنف اور دانشور فقیر شاہ نواز نظامانی کے ساتھ بے شمار فونک نشستوں میں سُنے۔ افواج پاکستان پنجاب کے طویل بارڈر پر دشمن کے مقابل نبرد آزما تھی مگر جنوبی پنجاب سے منسلک شمالی سندھ سے لے کر سندھ کے جنوب اور تھر پارکر تک کے طویل ریگستان کے تحفظ کے لیے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے حُروں کے پیشوا اور سالار حضرت شاہ مردان ثانی پیر صاحب پگارو سے مدد طلب کی۔ جواب میں قبلہ پیر صاحب نے فرمایا کہ جتنے ہتھیار دو گے اتنے مجاہد ارض وطن کی حرمت مٹانے کے لیے حاضر ہوں گے۔سخی محمد مہران راوی ہیں کہ 1965ء کی جنگ کے دوران میں اخبارات میں جب حضرت پیر صاحب کا حکم نامہ جاری ہوا۔


  • مجاہدو! دشمن نے ہم پر حملہ کر کے اسلام کی سربلندی اور وطن کی سالمیت کو چیلنج کیا ہے آپ لوگ عمر کوٹ پہنچے جہاں اہم خطاب ہوا اس پر تحریک آزادی کے وہ شیر جو سید صبغت اللہ شاہ شہید کے ساتھ انگریزوں سے تاریخی معرکہ آرائی میں شامل تھے اپنے عظیم المرتبت مرشد کی شہادت کا صدمہ اٹھائے اپنے زخموں کو کریدتے ہوئے عمر کوٹ کے میدان میں پہنچے۔ حر حکم میرے نانا نے سُنا تو اپنے سینے پر ہتھیار سجا کر نکلے۔
  • قوم کے بیٹے نے دریافت کیا بابا یہ کیا ہے؟ مجاہد نے جواب دیا کافر وطن عزیز پر چڑھ آئے ہیں ہمیں حسینی جذبے دکھانے ہیں۔ بیٹے نے کہا کہ بابا جان آپ درگاہ شریف کے امور سنبھالو حسینی لشکر میں آپ کا سرفروش بیٹا جائے گا۔ بیٹے کا جذبہ دیکھ کر باپ بے اختیار بولے شاباش میرے لعل، تیری ماں نے تجھے آج مرشد کے حکم اور وطن کی حرمت پر قربان ہونے کے لیے پیدا کیا تھا۔ تجھے اللہ کی امان اور پیروں کا سایہ خوشا قسمت کہ بیٹے نے شہادت پا کر وطن کی عزت رکھ لی۔ حُر مجاہدین کے گھروں میں جھگڑے کھڑے ہو گئے کیونکہ ہر پیرو جواں شوق شہادت سے مسرور محاذ پر پہنچنا چاہتا تھا۔
  • بزرگ اپنے بالوں کو سیاہ کرکے جوانوں میں شامل ہونے لگے۔ راوی کا کہنا ہے کہ پوری حُر جماعت میں عجب سماں تھا۔ گھروں میں شادی کے گیت گا کر جوان بیٹوں کو رخصت کیا جا رہا تھا۔ لوگ حیران تھے کہ عجب جذبہ ہے بیٹے جان قربان کرنے جا رہے ہیں تو گھروں میں شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔


  • 9 ستمبر 1965ء کا دن مجاہد جوق در جوق عمر کوٹ پہنچے۔ اس معرکہ گاہ میں موجود آفتاب نظامانی لکھتے ہیں کہ حضرت پیر صاحب کے محاذ جنگ پر موجودگی سے مجاہدین کے جذبے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ مجاہدین سے کھچا کھچ بھرا قلعہ عمر کوٹ بھیج پگارو اور نعرہ تکبیر کی صدائوں سے گونج اٹھا۔ عمر کوٹ کے معروف قلعہ پر جب مجاہدین جمع ہونے شروع ہوئے تو حکومتی ہتھیار کم پڑ گئے۔ حُر مجاہدین قطار در قطار بڑھتے گئے۔ راوی فقیر سہراب راجڑ نے بتایا کہ حکم ملتے ہی درگاہ عالیہ پیر جوگوٹھ میں حُر مجاہد موجود اپنے مرشد عالی مرتبت سے جہاد پر جانے کی اجازت کے لیے بے قرار نظر آتے مگر حضرت پیر صاحب نے فرمایا کہ تم میری اولاد ہو بغیر ہتھیاروں کے کیسے دشمن کی توپوں کے سپرد کر دوں۔ سہراب فقیر نے عرض کی کہ قبلہ سائیں ہمیں ہتھیاروں کی نہیں آپ کی دعائوں کی ضرورت ہے۔ ہم درخت کے ڈنڈوں کو ہتھیار بنا کر دشمن سے نمٹ لیں گے۔ قلعہ عمر کوٹ میں مجاہدین کے ریلے تھے کہ سمندر کی لہریں تھیں۔


  • حضرت پیر صاحب پگارونے حالات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے جنگی حکمت عملی مرتب کی۔ ساری حُر فورس کے عسکری قیادت بذات خود کرنے کا فیصلہ فرمایا پھر جنگی علاقوں اور حُر لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ شمالی سندھ سے جنوبی پنجاب کی طویل سرحد پر اپنے برادر اصغر سید نا در علی شاہ راشدی کو لشکر کا سالار بنا کر دشمن پر یلغار کرنے کے لیے بھیجا جبکہ جنوبی سندھ اور تھر پارکر کے محاذ کی کمان خلیفہ شہید امین مینگریو کے سپرد فرمائی۔ جنگ کے دوران میں حر مجاہدو نے اپنے مرشد و مربی حضرت پیر صاحب پگارو کو ہر محاذ پر اپنے ہمراہ پایا جس سے ان سے ان کا جوش و جذبہ نے وہ تاریخ رقم کی جس کی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ملت پاکستانیہ کے ان فرزندوں کے جنوبی پنجاب سے شمالی سندھ اور تھر پارکر کے ساتھ جنوبی سندھ کے محاذوں پر جدید ترین اسلحہ سے لیس ایک بڑی فوج کو نہ صرف اپنے علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ایک وسیع بھارتی خطہ ارض پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر دشمن کے دلوں میں اسلامی لشکر کی ہیبت و جلالت کے گہرے نقش ثبت کر دیے۔
فائل:Hurrs mojhed.jpg

سندھی صوفیا کے سلسلہ راشدی کی ایک شاخ کے بانی پیر پگاڑا کے پیرو۔ اس شاخ کے پہلے سید صبغت اللہ شاہ راشدی اول اپنے والد سید محمد راشد شاہ بنسید محمد بقا شاہ کی وفات کے بعد مسند آرائے رشد و ہدایت ہوئے۔ اور پیر پگارا ’’صاحب دستار‘‘ کہلائے۔ ان کے دوسرے بھائی پیر جھنڈاکے لقب سے ملقب ہوئے۔ اس وقت تک سکھوں کی یلغار سندھ کی حدود تک وسیع ہو گئی تھی۔ اور انگریزوں کا بھی اسی اسلامی سلطنت پر دانت تھا۔ پیر پگارا نے سندھ کو دشمنوں سے بچانے کے لیے سرفروشوں کی ایک جماعت تیار کی اور انھیں حر کا نام دیا۔ اس وقت سے پیران پگارا کے مرید حر کہلاتے ہیں۔

  • پہلی حُر تحریک 1830ءمیں پیر صبغت اللہ شاہ اول کے دور میں شروع ہوئی، دوسری حُر تحریک (1847ء۔ 1890ء) سید حزب اللہ شاہ تخت دھنی کے دور میں شروع ہوئی، حُر تحریک کا تیسرا مرحلہ 1895ءمیں چلایا گیا جبکہ چوتھے مرحلہ میں پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی المعروف سوریہہ بادشاہ نے 1928ءمیں حُر تحریک کی بنیاد رکھی۔ حروں نے انگریزوں کے خلاف متعدد مرتبہ علم جہاد بلند کیا اورسندھ پر انگریزوں کے قبضے کے بعد بھی کافی عرصے تک چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں حروں نے بغاوت کی تو انگریزوں نے اسے بڑے بے دردی سے کچل دیا اور سید صبغت اللہ شاہ راشدی ثانی کو 1943ء میں، پھانسی دے دی گئی۔ ان کے فرزند شاہ مردان شاہ دوم کو تعلیم و تربیت کے لیے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ پیر صاحب قیام پاکستان کے تین سال بعد وطن واپس آئے اور اپنے والد کی مسند پر بیٹھے۔ حروں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی داد شجاعت دی اور سندھ کے محاذ پر دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیے۔