ابو یوسف ابن سمنان

سلسلہ چشتیہ کے نامور بزرگ اور خواجہ مودود چشتی کے مرشد
(خواجہ ابو یوسف سے رجوع مکرر)


پورا نام خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی ہے۔ آپ کا سلسلۂ نسب امام زین العابدین سے ملتا ہے۔ آپ کا لقب ناصرالدین تھا۔ آپ کے والد محمد سمعان نجیب الطرفین سید تھے۔ خالق کائنات نے علم اکمل اور عمل افضل سے نوازا تھا۔ آپ نے خرقۂ فقر و ارادت اپنے ماموں ابو محمد چشتی سے پایا اور انھیں سے تربیت حاصل کی۔[1]

ابو یوسف ابن سمنان
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 985ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چشت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 30 مئی 1067ء (81–82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
چشت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن چشت   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد خواجہ مودود چشتی   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ خواجہ ابو محمد   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص خواجہ مودود چشتی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

آپ ابو محمد ابدال کے بھانجے، مرید اور خلیفہ تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ ابو محمد چشتی کی ہمشیرہ مکرمہ بھی ولیہ کامل تھیں۔ ہمیشہ عبادت و ریاضت میں رہتیں۔ چالیس برس کی عمر تک شادی کو تیار نہ تھیں لیکن ایک دن والد ماجد ابو احمد کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں اس شہر میں ایک سید زادہ محمد سمعان ہے تمھارے مقدر میں لکھا ہے کہ وہ تمھارا شوہر بنے گا اور ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے نور ولایت سے ہمارا خاندان روشن ہوگا۔ دوسری طرف ایسا ہی خواب ابو محمد نے بھی دیکھا۔ چنانچہ صبح شہر بھر میں اس سید زادے کی تلاش کرائی گئی۔ جب اس سید زادے کو لایا گیا تو بی بی کا نکاح سید زادے سے پڑھا دیا گیا۔ بی بی بھی چونکہ واقف حال تھیں معترض نہ ہوئیں۔ اس بی بی کے بطن سے ابو یوسف پیدا ہوئے۔ آپ کا نسب پاک یوں ہے[2]

مضامین بسلسلہ

تصوف

 

شجرہ طریقت چشتیہ

ترمیم

آپ اپنے ماموں ابو محمد چشتی کے زیر تربیت رہے۔ آپ کی عمر چھتیس سال کی تھی جب آپ کے ماموں کا انتقال ہوا اور آپ ان کی جگہ مسند افروز ہوئے۔ پچاس سال کی عمر میں آپ ابو اسحق شامی کے ایک خلیفہ حاجی کے مزار کے قریب ایک تہ خانہ بنوا کر اس میں معتکف ہو گئے آپ تقریباً بارہ سال تک یہاں معتکف رہے۔ آپ کی وفات سوم ماہ رجب المرجب 459ھ کو ہوئی۔ آپ علاقہ کے قابل احترام شخصیت تھے آپ کی ملاقات عبد اللہ انصاری (متوفی 481) سے بھی ہوتی تھی ـ ابوبکر شبلی (متوفی 334) اپنے وقت میں ابو یوسف چشتی کے محفل سماع میں حاضر ہوتے تھے ,[3]

ابو یوسف چشتی کا نکاح

ترمیم

اپنے پیر و مربی کے وصال کے بعد آپ نے ایک مرتبہ ہرات کا سفر کیا ہرات سے واپسی پر کنک نامی گاؤں پہنچنے پر شام ہو گئی اور ابو یوسف چشتی نے وہاں ایک درویش کے کاشانے میں قیام کیا، ان بزرگ سیرت درویش کی ایک پاک باز اور پارسا بیٹی تھیں اس لڑکی نے خواب دیکھا کہ چودھویں کا چاند آسمان سے ان کی گود میں اتر آیا اور کہتا ہے کہ میں تجھے اپنی زوجیت میں لینا چاہتا ہوں اور لڑکی نے قبول بھی کر لیا، مگر جب صبح کے وقت وہ درویش بزرگ خواجہ کی خدمت میں آئے۔ تو خواجہ صاحب نے لڑکی کا یہی خواب ان سے بیان فرماتے ہوئے تعبیر بتائی کہ اللہ کی یہی مرضی ہے کہ میں آپ کی بیٹی سے نکاح کروں اور اس کی بطن سے قطب زمانہ فرزند پیدا ہوں یہ بات سن کر درویش خاموش رہے اور گھر جا کر اپنی بیٹی سے سارا واقعہ بیان کیا اور درویش کی لڑکی نے اس خواب کو بالکل سچ بتایا اور اپنی رضامندی ظاہر کی، اس کے بعد درویش خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میری کیا مجال کہ میں آپ جیسے عالی مرتبت بزرگ کو انکار کروں۔

اس طرح اس درویش نے اپنی بیٹی کا نکاح ابو یوسف چشتی سے پڑھایا اور کچھ دن بعد اپنی زوجہ کو لے کر وطن روانہ ہوئے اور ان سے قطب زمانہ فرزند قطب الدین مودود چشتی اورشیخ تاج الدین ابولفتح پیدا ہوئے [1] ـ

شجرہ جات

ترمیم

شجرہ نسب خواجہ ابویوسف

ترمیم

شجرہ شریف از جانب والدہ ماجدہ

ترمیم

شجرہ شریف از جانب والدہ ماجدہ طریق ب حضرت امام حسن مہر سند آپ کا شجرہ نسب از طرف والدہ ماجدہ -

  • امیر المومنین حضرت علی ابن ابو طالب
  • سید امام حسن
  • سید حسن مثنٰی
  • سید حسین
  • سید عبد اﷲ
  • سید یحیٰی
  • سید ابرا ہیم
  • سید احمد
  • سید سلطان فرسنا فہ
  • سید ابو احمد ابدال
  • بی بی خظامت اللہ بنت سید ابو احمد ابدال
  • سیدابو یوسف ناصر الدین ایو سف چشتی (375ہجری  459 ہجری)

سلسلہ اولاد ابویوسف

ترمیم

ابو یوسفؒ کی مجلس سماع

ترمیم

ابو یوسف بن سمعان کے مجلس سماع میں سوائے فقراء علما صلحا اور مشائخ کے کسی کو آنے کی اجازت نہیں تھی،سماع کے دوران اگر کوئی دنیا والوں میں سے چلا آتا تو آپ سماع رکوا دیتے اور اس کے جانے کے بعد دوبارہ سماع شروع ہوتا،اگر کوئی فاسق اصرار کر کے شریک ہو جاتا اور آخر وقت تک رہتا تو اپنے فسق و فجور سے توبہ کرکے مشائخ میں شامل ہو جاتا،ابو یوسف بن سمعان اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میری مجلس میں اگر کوئی فاجر آئے گا تو وہ صاحب نعمت ہو کر واپس جائیگا،

سماع کی برکت

ترمیم

ایک شخص نے ابو یوسف سے دریافت کی کہ اگر سماع اسرار الہی ہے تو جنید بغدادی کیوں اس سے تائب ہو گئے ابو یوسف نے جواب دیا شیخ ابو بکر شبلی جنید بغدادی کے خلیفہ اور حجت ہیں برابر میری محفل میں حاضر ہوتے اور سماع سنتے ہیں، قسم اللہ کی اگر جنید بغدادی میری محفل میں شریک ہوتے تو ہرگز توبہ نہ کرتے، چونکہ جنید بغدادی کو احوال و اخوانے سماع میں دشواری محسوس ہوئی اس لیے انھوں نے توبہ کرلی، جس کو اخوانے سماع میسر نہ ہوں بلا شبہ اس کو سماع سے توبہ کرنا چائیے۔

سماع کے خاص آداب

ترمیم
  • سماع کے خاص آداب ہیں جب تک تجھے ضرورت محسوس نہ ہو سماع نہ کیا جائے،
  • سماع کو عادت کے طور پر بھی اختیار نہ کیا جائے،
  • جب سماع کرے تو کافی دیر بعد کرے تا کہ اس کی تعظیم دل سے محو نہ ہو اور پیر و مرشد کی موجودگی ضروری ہے،
  • سماع کی محفل میں بے ذوق لوگوں کی شرکت منع ہے،
  • قوالوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماہر فن صاحب عشق و حال و زی عزت ہوں،
  • نوعمر لڑکوں اور خواتین کی شرکت کی اجازت اس لیے نہیں ہے کہ اس سے حجاب اور پراگندگی کا احتمال ہوتا ہے،
  • کچھ جاہل صوفی ان باتوں میں تصرف کرکے تصوف اور طریق تصوف کے لیے بدنامی کا باعث بنتے ہیں،[5]

حوالہ جات

ترمیم
فائل:Referenced from Book.jpg
Referenced from Book Khwaajah Maudood Chisti
  • [3] Chishti Tariqa
  • [4]آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ soofie.org.za (Error: unknown archive URL) Soofie(Sufi)
  • [5] Chishti Order
  • [6] طريقۂ چشتیہ در ہند و پاكستان و خدمات پيرواناين طريقہ بہ فرہنگہاى اسلامى و ايرانى‎
  • ( خزینہ الاصفیاء: مفتی غلام سرور لاہوری )
  • تذکرہ سید مودودی ادارہ معارف اسلامی لاہور
  • سیر الاولیاء
  • مرا ۃ الاسرار
  • تاریخ مشائخ چشت
  • سفینہ العارفین
  • تذکرہ غوث و قطب

حوالہ جات بیرون

ترمیم
  1. ^ ا ب [1] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iranibook.com (Error: unknown archive URL) خواجگان چشت سيرالاقطاب: زندگينامہ ہائے مشايخ چشتیہ
  2. بحوالہ کتاب (خواجہ براہیم  یک پاسی چشتی) 
  3. [2] تذكار يكپاسى
  4. شجرہ موروثی سادات کرانی
  5. کشف المحجوب (سید علی بن عثمان ہجویری)