رصدگاہ مراغہ ایل خانی سلطنت میں تعمیر کی جانے والی ایک عظیم الشان رصدگاہ تھی جسے علم فلکیات کے مشاہدات کے مقصد کے فارسی سائنسدان اور ماہر فلکیات نصیر الدین طوسی (متوفی: 1274 ء) نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ رصدگاہ مراغہ شہر کے مغربی جانب بالائی علاقے پر واقع ہے جو آج کل ایران کے صوبہ آذربائیجان شرقی میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ رصدگاہ یوریشیائی ممالک میں اپنے زمانے کی جدید ترین رصدگاہ تھی جہاں سائنسی آلات کے ذریعے فلکیاتی مشاہدات کیے جاتے تھے۔[1]

رصدگاہ کے باقی ماندہ آثار پر حفاظتی گنبد جو 2017ء میں تعمیر کیا گیا۔
رصدگاہ مراغہ، تعمیر جدید کے بعد۔

یہ رصدگاہ ایل خانی حکمران ہلاکو خان کی اجازت سے نصیر الدین طوسی نے 1259ء میں تعمیر کروائی تھی۔اِس رصدگاہ کے اِنتظام کے لیے نصیر الدین طوسی کے بعد اِسے وقف کر دیا گیا جس کے تحت خراج (ٹیکس) کے ذریعے اِس کے اِنتظامات کو پورا کیا جاتا رہا اور آئندہ پچاس سالوں تک یہ رصدگاہ فعال رہی۔متاخر ادوار میں اِسی رصدگاہ کی طرز پر پندرہویں صدی عیسوی میں سمرقند میں رصدگاہ الغ بیگ گورگانی ، سولہویں صدی عیسوی میں استنبول میں رصدگاہ تقی الدین، قسطنطنیہ اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں جے پور میں جے سنگھ دوم نے جے سنگھ رصدگاہ تعمیر کروائی۔[2]

موجودہ جدید گنبد کے زیریں جانب اصل رصدگاہ کے آثار

تاریخ

ترمیم
 
رصدگاہ میں تحقیقی کام کرتے ہوئے نصیر الدین طوسی کو دکھایا گیا ہے۔

اِس رصدگاہ کی تعمیر تقریباً 1258ء سے شروع ہو گئی کیونکہ مراغہ 628ھ مطابق 1231ء میں منگولوں کے قبضہ میں آگیا تھا۔[3] اِس رصدگاہ میں فلکیات کے مشاہدات 657ھ مطابق 1259ء میں شروع ہوئے۔ہلاکو خان نے 656ھ مطابق 1258ء میں جب بغداد کو فتح کرکے منگول سلطنت کا حصہ بنا لیا تو وہ بغداد کی بجائے مراغہ میں قیام پزیر ہوا اور اُس نے حکم دیا کہ مراغہ میں نصیر الدین طوسی کے نقشے کے مطابق ایک رصدگاہ تعمیر کی جائے۔ نصیر الدین طوسی کے چار مشیروں میں سے فخر الدین مراغہ کا باشندہ تھا۔[4] بقول رشید الدین فضل اللہ ہمدانی، اِس رصدگاہ کی تعمیر کے پس پردہ نصیر الدین طوسی کی کوشش کارگر ثابت ہوئی تھی، کیونکہ وہ ریاضی دان، سائنس دان اور ماہر فلکیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہلاکو خان کے مشیر بھی تھے۔بقول رشید الدین فضل اللہ ہمدانی، اِس رصدگاہ کی تعمیر کے پس پردہ نصیر الدین طوسی کی کوشش کارگر ثابت ہوئی تھی، کیونکہ وہ ریاضی دان، سائنس دان اور ماہر فلکیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہلاکو خان کے مشیر بھی تھے۔ہلاکو خان نے انھیں نئی رصدگاہ کی تعمیر کے لیے زمین کا اِنتخاب کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد نصیر الدین طوسی نے مراغہ کو منتخب کیا اور اِس رصدگاہ کا نقشہ بنایا تھا۔تیرہویں صدی کی کتبِ تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس رصدگاہ میں تعلیم کی خاطر طلبہ چین سے بھی آیا کرتے تھے جو منگول سلطنت کا حصہ رہا ہے۔ اِس رصدگاہ میں ریاضی سمیت طبیعیات اور فلکیات کے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔[5] بعد ازاں ابن العبری (متوفی: 1286ء) اِس رصدگاہ کے کتب خانہ (لائبریری) میں مطالعہ کی خاطر مقیم رہا اور ابن العبری نے اِس رصدگاہ کے متعلق تفصیلات بھی فراہم کی ہیں۔ نصیر الدین طوسی سمیت اُس دور کے نامور منجمین بھی اِس رصدگاہ میں بطور ماہر فلکیات کام کرتے رہے جن میں سے دمشق کے محی الدین المغربی (متوفی 1283ءمؤید الدین العرضی (متوفی 1266ء) اور ایران سے قطب الدین شیرازی (متوفی 1311ء) اور چین سے فاؤ مُنجِی شامل ہیں۔ نصیر الدین طوسی نے اِس رصدگاہ کو بطلیموس کے نظریۂ نظام شمسی پر ترتیب دیا تھا۔ تقریباً 12 سال کی محنت کے بعد منجمین کی ایک ٹیم نے جس میں محی الدین العرد الکاثی، نجم الدین القزوینی، قطب الدین شیرازی اور فخر الدین المراغی نے زیج ایل خانی مرتب کی جس میں فلکیات کے مشاہدات سمیت نظام شمسی اور سیاروں کے حالات، مقامات اور طلوع و غروب کے اوقات مندرج تھے۔ یہ جَدَاوَل فلکیاتی اباقا خان کے دورِ حکومت میں منظر عام پر آئے۔ بعد ازاں اِنہی جدولوں کو نکولس کوپرنیکس (متوفی 1543ء) نے نئی طرز پر مرتب کیا جو یورپ میں رائج ہوئے۔[6]

نقشہ و ہیئت عمارت

ترمیم

یہ رصدگاہ مراغہ میں ایک قلعہ بند پہاڑی پر تعمیر کی گئی ہے جو مراغہ شہر کے مغرب میں واقع ہے۔ اب موجودہ زمانے میں اِس رصدگاہ کے صرف دیواروں کی بنیاد اور آثار دکھائی دیتے ہیں۔ 1883ء کے ایک نقشے کے مطابق اِس پہاڑی کا مسطح رقبہ طول 137 میٹر اور عرض 347 میٹر ہے۔[7]

عہد زوال

ترمیم

تیرہویں صدی میں اِس رصدگاہ نے جو فلکیاتی کام شروع کیا تھا، وہ آئندہ پچاس سالوں تک بڑے زور و شور سے جاری رہا [8] مگر 1274ء میں نصیر الدین طوسی کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے نے بطور مہتمم اِس رصدگاہ کا اِنتظام سنبھال لیا۔ تاہم 1265ء میں ہلاکو خان اور 1282ء میں اباقا خان کی وفات کے بعد اِس رصدگاہ کا اِنتظام زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا [9] اور بعد کے منگول حکمرانوں نے اِس کی طرف توجہ دینا مناسب نہ سمجھا جس کی وجہ سے رصدگاہ کا نظام بگڑتا چلا گیا۔ چودہویں صدی کے آغاز میں یہ رصدگاہ غیر فعال دکھائی دینے لگی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متعدد زلزلوں اور اوقاف کی رقم کی معطلی کے بعد یہ رصدگاہ بند ہو گئی۔ متاخر منگول حکمران مراغہ پر لشکرکشی سے رصدگاہ کے کتب خانہ کی کتابیں وہ اپنے ساتھ لے گئے۔ صفوی سلطنت کے شہنشاہ شاہ عباس اول نے دوبارہ اِس رصدگاہ کی مرمت و تعمیر کا ارادہ کیا مگر 1629ء میں شاہ عباس اول کی وفات سے مرمت کا یہ منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا۔ 1978ء میں جامعہ تبریز نے جو اِس رصدگاہ کے قریب واقع ہے، نے اِس رصدگاہ کا اِنتظام اپنے سپرد لے لیا تاکہ رصدگاہ کی مرمت و تعمیر کی جاسکے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Stephen P. Blake (2016)۔ "The observatory in Maragha"۔ Astronomy and Astrology in the Islamic World۔ Edinburgh University Press۔ صفحہ: 65۔ ISBN 978-0748649112۔ In the history of Islamic astronomy the thirteenth century was the most important. It witnessed the founding of the Maragha Observatory, the most advanced scientific institution in the Eurasian world. 
  2. Ahmad Dallal (2010)۔ Islam, science, and the challenge of history۔ Yale University Press۔ صفحہ: 24–25۔ ISBN 9780300159110 
  3. ابن اثیر جزری: الکامل فی التاریخ، جلد 13، صفحہ 324۔
  4. رشید الدین فضل اللہ ہمدانی: جامع التواریخ، صفحہ 324۔
  5. "بهنام"۔ www.ichodoc.ir۔ 29 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2019 
  6. "بهنام"۔ www.ichodoc.ir۔ 29 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2019 
  7. اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 20، صفحہ 293۔
  8. "UNESCO Astronomy and World Heritage Webportal – Show entity"۔ www3.astronomicalheritage.net۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2019 
  9. "UNESCO Astronomy and World Heritage Webportal – Show entity"۔ www3.astronomicalheritage.net۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2019 

مزید دیکھیے

ترمیم