اپورب کشن بہادر کنور
مہاراجہ اپورب کشن دَیب بہادر کنورؔ (بنگلہ: অপূর্ব কৃষ্ণ দেব বাহাদুর، اپوربو کرشنا دیب بہادر؛ 1815ء – 1867ء) بنگال کے اردو اور فارسی شاعر اور ادیب تھے اور شوبھا بازار کے راجہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا ذکر جنم جئے متر ارمان نے ”تذکرہ نسخۂ دلکشا“ میں اور گارساں د تاسی نے تذکرہ شعرائے اردو میں کیا ہے۔ وہ صاحب دیوان تھے۔ اس کے علاوہ ان کا کارہائے نمایاں مسلمان بادشاہان ہند کا شاہنامہ ہے۔ اس شاہنامہ کی چار جلدیں تھیں۔ ہریت کشن دیب (اپورب کشن دیب کے پوتے کے پوتے) کے بقول اپوربو کرشنا نے اندازاً سنہ 1848ء میں شاہنامہ کی چار جلدوں کا ایک مجموعہ امریکن اورینٹل سوسائٹی کو تحفہ میں پیش کیا تھا اور وہ پہلے ہندوستانی ہیں جو اس انجمن کے اعزازی رکن (آنریری ممبر) ہوئے تھے۔ امریکن اورینٹل سوسائٹی کی سالانہ رپورٹ سنہ 1849ء میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔[2]
اپورب کشن بہادر کنور | |
---|---|
اپورب کشن بہادر کنور کی تصویر، مثنوی طیب اللہ، (کلکتہ، 1847ء) از منشی طیب اللہ سے ماخوذ[انگ 1]
| |
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1815ء [1] |
تاریخ وفات | سنہ 1867ء (51–52 سال)[1] |
شہریت | ![]() ![]() |
مذہب | ہندو مت |
فرقہ | ویشنو مت |
خاندان | شوبھا بازار راج |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
مادری زبان | بنگلہ |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، فارسی ، انگریزی ، کلکتیا اردو |
درستی - ترمیم ![]() |
حالات زندگی
ترمیمسنہ 1815ء میں مغربی بنگال میں شوبھا بازار راج خاندان کے یہاں پیدا ہوئے۔[3] ابتدائی تعلیم دھرمتلہ اکاڈمی اسکول سے حاصل کی۔[4] انھیں کم سنی سے شعر و شاعری کی جانب رغبت تھی۔ کُنْوَر تخلص اختیار کیا اور ریاض فن کی بنا پر عمدہ شاعری کرتے تھے۔ ان کی صوت سحر انگیز تھی اور ہر صبح ساز پر غزل گایا کرتے تھے۔ کنور مغلیہ دہلی دربار کے شاہی شاعر تھے۔[3] ان کے بعض اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وشنو بھگت تھے، انھوں نے اپنی مثنوی کے پہلے قصیدے کا آغاز کرشن کی حمد و ثنا سے کیا ہے۔[5]
ان کے دو بیٹے کمار کشن اور اوپندر کشن تھے۔ انھوں نے 52 سال کی عمر میں سنہ 1867ء میں وفات پائی۔[6]
تصانیف
ترمیم- چار جلدوں پر مشتمل ”شاهنامهٔ هند“ فارسی زبان میں ہے جنھیں سنہ 1848ء میں ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور اس کا ایک مجموعہ امریکن اورییٹل سوسائٹی کو بھی تحفتاً دیا تھا۔
- دو اردو دیوان۔ پہلا دیوان جو بنگلہ تاریخ 1250 مطابق 1843ء میں طبع ہوا۔ اوردھ کٹلاگ میں اس کی نشان دہی ملتی ہے لیکن دو سر دیوان جو بنگلہ تاریخ 1251 مطابق 1844ء میں چھپا تھا، خدا بخش خاں اورینٹل لائبریری پٹنہ میں موجود ہے۔
- اردو کی دو مثنویاں بعنوان ”مثنوئ کنور“ ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال میں موجود ہیں پہلی مثنوی پر سنِ اشاعت سنہ 1848ء اور دوسری کا سنہ 1846ء درج ہے۔
- ہندو تہذیب کے ویدانتی عہد پر ایک عالمانہ کتاب لکھی ہے، لیکن وہ نایاب ہے۔
- وفا راشدی کے بہ مطابق کنورؔ نے ایک ہفت روزہ رسالہ ”نظام شمسی“ سنہ 1830ء میں جاری کیا تھا۔[7]
حوالہ جات
ترمیم- اردو
- ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/298878 — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مئی 2020
- ↑ شانتی رنجن بھٹاچاریہ (1963)۔ بنگالی ہندوؤں کی اردو خدمات۔ کلکتہ: ہندوستان آرٹ پریس۔ ص 115
- ^ ا ب ابو بکر جیلانی (1989)۔ بنگال کا ایک نامور اردو شاعر کنور (اپنی دو مثنویوں کی روشنی میں)۔ کلکتہ: کیلی گراف آفسٹ پرنٹرز۔ ص 69
- ↑ شانتی رنجن بھٹاچاریہ (1963)۔ بنگالی ہندوؤں کی اردو خدمات۔ کلکتہ: ہندوستان آرٹ پریس۔ ص 117
- ↑ اپورب کشن دیب بہادر کنورؔ۔ مثنویٔ کنور جہاندار شاہ و شہزادی حور۔ کولکاتا: ابو بکر جیلانی (2007)۔ ص 21
- ↑ اپورب کشن دیب بہادر کنورؔ۔ مثنویٔ کنور جہاندار شاہ و شہزادی حور۔ کولکاتا: ابو بکر جیلانی (2007)۔ ص 20
- ↑ ابو بکر جیلانی (1978)۔ کنور ایک عظیم بنگالی شاعر۔ کلکتہ: اقدار کتاب گھر۔ ص 11
- انگریزی
- ↑ Lives of Maha Raja Apurva Krishna Bahadur, poet laureat to His Imperial Majesty of Delhi, and member of the Hamburg Academy, &c. &c. &c., his father and grandfather ... (بزبان انگریزی). 1846. Retrieved 2025-01-30 – via HathiTrust.