کلکتیا اردو

کلکتہ شہر کی اردو بولی

کلکتیا اردو (بنگلہ: কলকাতিয়া উর্দু) کلکتہ شہر میں بولی جانے والی اردو کی ایک بولی ہے، بنگالی زبان کے اثرات کے باعث ایک منفرد شناخت رکھتی ہے۔[1] یہ بالخصوص شہر کی مسلمان بستیوں میں رائج ہے اور اس کا ادبی ورثہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ کلکتیا اردو کی خصوصیات میں بنگالی زبان کے اثرات نمایاں ہیں، جو اس کی صوتیات، صرف و نحو اور لغت میں جھلکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض حروفِ تہجی کی ادائیگی اور جملوں کی ساخت میں بنگالی طرزِ ادا کا اثر محسوس کیا جا سکتا ہے۔[2] ادبی لحاظ سے، کلکتیا اردو نے کئی اہم شخصیات کو جنم دیا ہے جنھوں نے اس بولی میں شاعری اور نثر میں قابلِ قدر کام کیا۔ ابراہیم ہوش ایک نمایاں مثال ہیں جنھوں نے کلکتیا اردو میں شاعری کر کے ایک نئی مثال قائم کی۔[3]

کلکتیا اردو
کلکتہ کی اُردو بولی
خطہکلکتہ
قومکلکتیا (اہلِ کلکتہ)
اردو حروف تہجی
رموزِ زبان
آیزو 639-3

نصیر احمد لکھتے ہیں کہ ”کلکتیا اردو کلکتہ شہر میں بولی جانے والی اردو کی ایک زبردست سماجی بولی ہے جو شہر کی مسلمان بستیوں میں خاص طور سے رائج ہے۔ اسے عموما کلکتہ کے وہ پرانے اور غیر تعلیم یافتہ لوگ بولتے ہیں جن کے آبا و اجداد صوبہ بہار کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں آ کر بس گئے تھے۔ اردو کی اس بولی پر بولنے والوں کے اصل وطن کی زبان یعنی مگدھی، بھوجپوری وغیرہ اور بنگالی زبانوں کے اثرات مرتب ہوئے ہیں جنھیں سب سے زیادہ تلفظ پھر قواعد اور پھر لغت کی سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر یہ اردو کے مزدور پیشہ طبقے کے لوگوں کی زبان ہے جسے وہ اپنی برادری میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اردو سماج کے پڑھے لکھے طبقوں کے ساتھ بنگالی اردو کی معیاری شکل کو بھی یہ لوگ بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے کلکتیا اردو اس رعایت سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ بولی صرف کلکتہ شہر تک ہی محدود ہے۔ اس بولی کے نمونے مختلف تحریروں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔“[4]

اپورب کشن بہادر کنور (وفات: 1867ء) نے ”مثنوئ کنور“ میں چند اشعار میں کلکتیا اردو کا استعمال کیا ہے۔ ابو بکر جیلانی (استاذ شعبۂ اردو خضر پور کالج، کلکتہ) بعض ایسے اشعار ذکر کر کے لکھتے ہیں: ”شادی دینا، جنمیں گا، ہواں، بستر کرنا، توئی، لاگ کر، آنے سکے۔ کلکتے کی خاص زبان ہے جو بنگلہ کے اثر سے بنی ہے اور یہاں بخوبی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔“[5]

لسانی خصوصیات

ترمیم

کلکتیا اردو کی چند لسانی خصوصیات حسب ذیل ہیں:

  1. اردو میں عربی و فارسی کے مصمتے /ق ، ف ، ز ، خ ، غ/ کلکتیا اردو میں /ک ، پھ - پ، ج ، کھ اور گ/ ہو جاتے ہیں۔ /ش/ پر مشتمل الفاظ بھی /س/ مصمتے کے ساتھ تلفظ ہوتے ہیں۔
  2. /ہ/ آواز کی طرف رجحان کم ہے۔ اکثر الفاظ /ہ/ مصمتے کے بغیر تلفظ کیے جاتے ہیں، جیسے آہستہ سے آستا، نہیں سے نَئِیں وغیرہ۔
  3. عام طور پر دو مصوتے ایک ساتھ نہیں آتے۔ ایسے الفاظ میں مصوتے کو گرا دیا جاتا ہے یا اس کی جگہ کوئی مصمتہ تلفظ کیا جاتا ہے، جیسے جائے گی > جاگی، بنائیگی > بنابیگی، چائے > چا، کھائیں گے > کھانگے وغیرہ۔
  4. /و/ مصمتہ اکثر /ب/ میں بدل جاتا ہے، جیسے تصویر > تصبیر، تلوار > تلبار، جلوہ > جلبا، مولوی > مولبی۔
  5. مصوتوں کو انفی کرنے کی طرف عام رجحان پایا جاتا ہے، جیسے ہوش > ہونس، سوچ > سونچ، چالاکی > چلانکی۔
  6. لفظ کے آخیر میں مصمتی خوشوں کو توڑ دیا جاتا ہے یا آخری مصمتے کو گرا دیا جاتا ہے، جیسے درخت > درکھت، گوشت > گوش، عشق > اِسک، چاند > چان وغیرہ۔ لفظ کے شروع میں نیم مصوتے کے ساتھ بھی خوشے ممکن نہیں ہیں، جیسے کیا > کا، بیاہ > باہ۔
  7. طویل مصوتوں کو مختصر کرنے کی طرف بھی عام رجحان ملتا ہے جیسے دوسرا > دُسرا، آسمان > اَسمان۔
  8. مصمتوں کو مشدّد کرنے کی مثالیں بھی ملتی ہیں، جیسے کمر > کمّر، نیلام > نِلّام وغیره۔
  9. اردو کی دوسری بولیوں کی طرح کلکتیا اردو میں بھی مصمتوں کے ادغام کا عمل ہوتا ہے۔ اس صورت میں اکثر دوسرا مصمتہ پہلے مصمتے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، جیسے جتنا > جتّا، اُتنا > اُتّا وغیرہ۔
  10. نیم مصوتے لفظ کے شروع میں اکثر گر جاتے ہیں، جیسے یاد > آد، وہاں > ہواں، وہ > او وغیرہ۔
  11. ایسی مثالیں بھی کلکتیا اردو میں کثرت سے ملتی ہیں جہاں مصمتے لفظ میں اپنی جگہ بدل لیتے ہیں؛ جیسے لعنت > نالت، الزام > اجلام، رکشہ > رِسکا مقابلہ > مکالبہ وغیرہ۔
  12. کلکتیا اردو میں بعض ضمیریں بدلی ہوئی ملتی ہیں؛ جیسے تو > تے، مجھ > مِس، میں > مے، تجھ > تُس وغیرہ۔
  13. اردو میں میں ماضی کا لاحقہ ”ا“ اور ”یا“ ہے جو جنس، تعداد اور حالت وغیرہ کے لیے گردان کرتا ہے جبکہ کلکتیا اُردو میں محض ”اَس“ لاحقہ ملتا ہے جس میں کوئی تعریفی عمل نہیں ہوتا، جیسے دیکھا > دیکھنیں، گئی > گئیں، اڑا > اُڑس، بیٹھا یا بیٹھی > بیٹھس وغیرہ۔
  14. اردو کی دو جنسوں یعنی مذکر اور مؤنث کے مقابلے میں کلکتیا میں عام طور پر الفاظ مذکر ملتے ہیں۔ جو الفاظ اپنی اصل کے اعتبار سے مونث ہیں ان سے رشتہ رکھنے والے الفاظ بھی مذکر ہی استعمال ہوتے ہیں۔
  15. کلکتیا اردو میں الفاظ اپنی فعلی حالت میں بھی کوئی تصریفی عمل نہیں رکھتے۔ لڑکے کے گھر گیا > لڑکا کا گھر گئیں، تھوڑے دن کے بعد > تھوڑا دن کا باد وغیرہ۔
  16. اردو کے بعض الفاظ کے تلفظ اس طرح بدل جاتے ہیں؛ اندھیرا > اندھیالا، فیرینی > پھرنی، بدنامی > بدلامی، میلاد > مولود، آگے > اگو، پیسے والا > پیسے آلا، جانور > جناور، نمک > نہمک، مسجد > مہجد، سحری > سرگہی، کم > کمتی، گھبرانا > گھبڑانا، لائیں > لابیں، الوداع > البدا اور > اَر وغیرہ۔
  17. کلکتیا اردو میں بعض الفاظ ایسے ہیں جو اردو میں نہیں ملتے، جیسے ٹھکڑی (غریبی)، ماکڑی (لڑکی)، بُڑبک (بے وقوف)، ٹھو (عدد)، سرتا (یادداشت)، کنکھی (کنکڑی)، بَمک (جذباتی ہونا) ، سوڑی (کھانا) وغیرہ۔[6]

مثالیں

ترمیم

کلکتیا اردو اور معیاری اردو میں فرق کو حسب ذیل امثال سے سمجھا جا سکتا ہے:[7]

کلکتیا اردو معیاری اردو
ایک آدمی کا دو ٹھو بیٹا رہس تھا۔ ایک دن چھوٹا لڑکا اپنا باپ سے بولیس کی تیرا جائجات میں جو میرا ہسہ ہوبے ہے او تے مسکو دیدے باپ، ای بات سن کے آکھر میں اپنا جائجات کو دونوں میں بروبر بروبر آپس میں باٹ دیس۔ ایک شخص کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے چھوٹے نے باپ سے کہا: ابا جان، آپ کی جائداد میں جو کچھ میرا حصہ ہے وہ مجھے دے دیجیے۔ چنانچہ اس نے اپنا اثاثہ دونوں میں تقسیم کر دیا۔
کلکتیا اردو میں شعر کی مثال

خورشید اختر کے دو شعر یوں ہیں:

گرج رہِس ہے مُج پہ برس رہِس ہے مُج پہسرمایہ دار جالِم برس رہِس ہے مُج پہ
بی بی جب کھرچا مانگِس ماسُوک آنک نکالِسدونوں جما کے گھونسا، برس رہِس ہے مُج پہ

(رہِس ہے = رہی ہے / رہا ہے، مُج = مجھ، جالم = ظالم ، کھرچا = خرچہ، مانگس = مانگ رہی ہے / مانگ رہا ہے، ماسوک = معشوق، آنک = آنکھ ، نکالِس = نکال رہا ہے / نکال رہی ہے)[8]

جاوید نہال لکھتے ہیں کہ ”اس شہر (کلکتہ) میں بنگلہ، اردو اور ہندی کے اختلاط سے ایک الگ مقامی بولی پیدا ہوئی جو کلکتیا اردو کے نام سے مشہور ہوئی جو اصل میں کھڑی بولی کی کثیف شکل ہے اور کلکتہ والوں کے لئے محض بول چال کی زبان رہ گئی ہے۔ اس زبان میں بھی اس طرح کوئی ادب پیدا نہ ہو سکا۔“[9]

بنگال کے شاعر اور صحافی ابراہیم ہوش نے کلکتیا اردو میں ظریفانہ شاعری کی ہے۔ ”جندگی کا میلا“ کلکتیا شاعری پر ان کا مجموعہ ہے، جس میں کلکتہ کے سماج اور معاشرہ پر گہرا طنز ملتا ہے۔ بقول سالک لکھنوی:

ان کا (ہوش کا) ایک بڑا کارنامہ کلکتیا اردو سے نظم و نثر کو روشناس کرانا تھا۔ یہ ایک بولی ہے جو اردو سے ملتی جلتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی بولی ہے جن کے اجداد اتر پردیش یا بہار سے تلاش معاش میں کلکتے آئے اور زیادہ تر شہر کے اطراف کے ان علاقوں میں بس گئے اور ان میں جہاں صنعتی کارخانے تھے۔ کلکتیا اردو بولنے والوں کو بنگالی بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ وہ بنگلہ نہیں بول سکتے۔ نہ وہ اودھ و بہار کی اودھی یا بھوجپوری یا اس قسم کی کوئی اور بولی بولتے ہیں۔ وہ ایک منفرد بولی بولتے ہیں جسے ”کلکتیا اردو“ کہا جاتا ہے۔ اس زبان میں اب تک نہ شاعری تھی نہ ادب کی کوئی اور صنف۔ ابراہیم ہوش چونکہ اسی طبقے سے تھے اس لیے انھیں اس بولی میں بڑی مہارت تھی اور یہ اُن کی ذات تھی جس نے اس بولی میں نہ صرف دلچسپ شاعری کی بلکہ نثر نگاری اور مکالمے تک لکھ ڈالے۔ اس بولی میں ان کا ایک مختصر مجموعہ کلام ”جندگی کا میلا“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ افسوس کہ اب نایاب ہے۔[10]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. عبد الرؤف (1990)۔ مغربی بنگال میں اردو کا لسانیاتی ارتقاء۔ کلکتہ: مغربی بنگال اردو اکاڈمی۔ ص 174
  2. شانتی رنجن بھٹاچاریہ (1989)۔ بنگال کی زبانوں سے اردو کا رشتہ (ایک لسانی مطالعہ) (دوسرا ایڈیشن)۔ امین آباد، لکھنؤ: نصرت پبلشرز۔ ص 144
  3. ابو الکلام رحمانی (2004)۔ "مغربی بنگال میں اردو طنز و مزاح"۔ آزادی کے بعد مغربی بنگال کا اردو ادب۔ مرتب: نعیم انیس۔ کلکتہ: دی مسلم انسٹی ٹیوٹ۔ ص 81–82
  4. نصیر احمد (1979)۔ اردو بولیاں اور کرخنداری کا عمرانی لسانیاتی مطالعہ۔ دہلی: ادارۂ تصنیف۔ ص 54
  5. ابو بکر جیلانی (1989)۔ بنگال کا ایک نامور اردو شاعر کنور (اپنی دو مثنویوں کی روشنی میں)۔ کلکتہ: کیلی گراف آفسٹ پرنٹرز۔ ص 199
  6. نصیر احمد (1979)۔ اردو بولیاں اور کرخنداری کا عمرانی لسانیاتی مطالعہ۔ دہلی: ادارۂ تصنیف۔ ص 55–57
  7. عبد الرؤف (1990)۔ مغربی بنگال میں اردو کا لسانیاتی ارتقاء۔ کلکتہ: مغربی بنگال اردو اکاڈمی۔ ص 175
  8. شانتی رنجن بھٹاچاریہ (1989)۔ بنگال کی زبانوں سے اردو کا رشتہ (ایک لسانی مطالعہ) (دوسرا ایڈیشن)۔ امین آباد، لکھنؤ: نصرت پبلشرز۔ ص 144–145
  9. جاوید نہاد (1969)۔ انیسویں صدی میں بنگال کا اردو ادب۔ کلکتہ: اردو رائٹرس گلڈ۔ ص 13
  10. سالک لکھنوی (1998)۔ بنگال میں اردو نثر کی تاریخ۔ کلکتہ: مغربی بنگال اردو اکاڈمی۔ ص 262