فیروزآباد شہر تاج محل کی سرزمین آگرہ سے 40 کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ یہ بھارت کے دار الحکومت دہلی سے دو سو کلومیٹر اور اتر پردیش کے دار الحکومت لکھنؤ سے ڈھائی سو کلومیٹر دور ہے۔ یہ شہر اپنے کانچ کے بنے سامان خصوصاً خوشنما چوڑیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہاں کی آبادی کافی گنجان ہے اور مغرب کی جانب ھندو جبکہ مشرق کی جانب مسلمان آباد ہیں اس شہر میں ڈیڑھ سو 150 مساجد ہیں۔

یہاں کی عیدگاہ شہرکے شروع میں مغرب کی جانب واقع ہے۔ یہ اب گاندھی پارک کے اندر ہو گئی ہے اس کے قریب ہی قدیم زمانہ میں کچہری لگا کرتی تھی جو اب دوسری جگہ منتقل ہو گئی ہے اس کے تھوڑا اور پیچھے آنے پر اسلامیہ انٹرکالج کا وسیع میدان ہے۔ اس کی جامع مسجد ایک قدیمی مسجد ہے جو شہر کے بیچ کے علاقہ میں قائم ہے دوسری جانب مسجد وصیہ ہے جو مدرسہ دار العلوم سے متصل ہے

اس مسجد کا نچلا حصہ بند کر دیا گیا، اوپری حصہ پر نماز ہوتی ہے۔ فیروزآباد شہر کے لوگ جذباتی قسم کے اور دین سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اس شہر کی اکثر مساجد نماز کے اوقات میں بھری ہوئی ملتی ہیں۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر چوڑیوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ کھانے پینے میں کثرت کے ساتھ گوشت استعمال کرتے ہیں۔

تاریخ

ترمیم

فیروزآباد کو منصب دار نے 1566ء میں جلال الدین اکبر کی سلطنت میں دے دیا تھا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ ٹوڈرمل گیا کے سفر پر تھے اور جب اس شہر سے گذرے تو لٹیروں نے انھیں لوٹ لیا۔ ان کی درخواست پر اکبر اپنے منصب دار فیروز شاہ کو یہاں بھیجا۔

9 اگست 1632ء کو ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک تاجر مسٹر پیٹر یہاں آئے اور شہر کو اچھی حالت میں پایا۔ متھرا اور آگرہ کے دستاویزوں میں مذکور ہے کہ 1596ء میں فراز کو پرگنہ بنا دیا گیا تھا۔ فراز، اٹاوہ، بدایوں اور منی پوری درجہ اول کے منصبدار تھے۔ 1737ء میں ناجی راؤ اول نے فیروزآباد اور اعتماد پور کو لوٹ لیا۔ اس وقت محمد شاہ کی حکومت تھی۔ 9 مئی 1739ء کو مہابن کے جاٹوں نے فوج دار حکیم کاظم علی بہادر جنگ پر فیروزآباد میں حملہ کیا اور انھیں قتل کر دیا۔ اگلے 30 برسوں تک فیروزآباد پر جاٹوں نے حکومت کی۔

1802ء میں جنرل لیک اور جنرل ویلاجیلی نے فیروزآباد پر حملہ کیا۔ برطانوی حکومت کی ابتدا میں فیروزآباد ضلع اٹاوہ کا حصہ تھا مگر کچھ دنوں کے لیے اسے ضلع علی گڑھ میں شامل کر دیا گیا۔ 1832ء میں ایک نیا ضلع سد آباد، بھارت بنا تو فیروز آباد اسی کا حصہ ہو گیا۔ 1833ء میں فیروز آباد ضلع آگرہ کا حصہ بنا۔ 1847ء میں فیروز آباد میں لاکھ کی چوڑیوں کا کارخانہ خوب پھلا پھولا۔ فیروزآباد کئی تحریکوں اور مظاہروں کا بھی گواہ ہے۔ 1929ء میں بابائے قوم موہن داس گاندھی، 1935ء میں خان عبد الغار خان، 1937ء میں پنڈت جواہر لال نہرو اور 1940ء میں سبھاش چندر بوس نے فیروزآباد کی زیارت کی اورآزادی ہند کی تاریخ میں اس شہر کو ایک روشن باب بنادیا۔

جغرافیہ

ترمیم

فیروزآباد 27°09′N 78°25′E / 27.15°N 78.42°E / 27.15; 78.42 پر واقع ہے۔[1] سطح سمندر سے اس کی اوسط اونچائی 164 میٹر (538 فٹ) ہے۔

آب و ہوا

ترمیم
آب ہوا معلومات برائے فیروزآباد
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
اوسط بلند °س (°ف) 22
(72)
25
(77)
32
(90)
38
(100)
41
(106)
41
(106)
35
(95)
33
(91)
34
(93)
34
(93)
29
(84)
24
(75)
32.3
(90.2)
اوسط کم °س (°ف) 8
(46)
10
(50)
16
(61)
22
(72)
26
(79)
28
(82)
27
(81)
26
(79)
24
(75)
19
(66)
13
(55)
9
(48)
19
(66.2)
اوسط عمل ترسیب مم (انچ) 10.2
(0.402)
12.7
(0.5)
10.2
(0.402)
10.2
(0.402)
15.2
(0.598)
66.0
(2.598)
195.6
(7.701)
226.1
(8.902)
114.3
(4.5)
27.9
(1.098)
2.5
(0.098)
5.1
(0.201)
696
(27.402)
ماخذ: Firozabad Weather

شماریات

ترمیم
فیروزآباد شہر میں مذہب[2]
Religion Percent
ہندو
  
62.36%
مسلمان
  
32.80%
جین مت
  
1.76%
نا معلوم
  
1.51%
مسیحی
  
0.22%
بدھ مت
  
0.20%
سکھ مت
  
0.14%

بمطابق 2011 بھارت، مردم شماری,[3] فیروزآباد کی کل آبادی 603,797 تھی جس میں 53 فیصد مرد اور 47 فیصد خواتیں ہیں۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. Falling Rain Genomics, Inc - Firozabad
  2. "[[بھارت میں مردم شماری، 2011ء]] data"۔ census2011.co.in  وصلة إنترويكي مضمنة في URL العنوان (معاونت)
  3. "Census of India 2001: Data from the 2001 Census, including cities, villages and towns (Provisional)"۔ Census Commission of India۔ 16 جون 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2008