نصیر الدین محمد ہمایوں
نصیر الدین محمد ہمایوں، جو 1530ء تا 1540ء اور پھر 1555ء تا 1556ء مغلیہ سلطنت کے حکمران رہے۔ ہمایوں بانئ سلطنت ظہیر الدین بابر کا بیٹا تھا۔ اس کے تین اور بھائی کامران، عسکری اور ہندالی تھے۔ 17 مارچ 1508ء میں کابل میں پیدا ہوا۔ اس کی والدہ کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترک، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ اسے حساب، فلسفہ، علم نجوم اور علم فلکیات سے خصوصی دلچسپی تھی۔ سپہ گری اور نظم و نسق کی اعلیٰ تربیت حاصل کی اور صرف 20 سال کی عمر میں بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا۔ اس نے پانی پت اور کنواہہ کی لڑائیوں میں شمولیت اختیار کی۔ اس کی خدمات کے صلے میں اسے حصار فیروزہ کا علاقہ دے دیا گیا۔ 1527ء کے بعد اسے دوبارہ بدخشاں بھیج دیا گیا۔ 1529ء جب وہ آگرہ واپس لوٹا تو اسے سنبھل کی جاگیر کے انتظامات سونپے گئے۔
نصیر الدین محمد ہمایوں | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(فارسی میں: نصیرالدین همایون) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 6 مارچ 1508ء کابل |
||||||
وفات | 27 جنوری 1556ء (48 سال) دہلی |
||||||
مدفن | مقبرہ ہمایوں | ||||||
طرز وفات | حادثاتی موت | ||||||
زوجہ | بیگہ بیگم گنوار بیگم حمیدہ بانو بیگم ماہ چوچک بیگم |
||||||
اولاد | اکبر ، الامان مرزا ، مرزا محمد حکیم ، بخشی بانو بیگم ، بخت النساء بیگم ، سکینہ بانو بیگم | ||||||
والد | ظہیر الدین محمد بابر | ||||||
والدہ | ماہم بیگم | ||||||
بہن/بھائی | گلبدن بیگم ، فخر النسا ، گل چہرہ بیگم ، کامران مرزا ، التون بشیک ، عسکری مرزا ، مرزا ہندال ، گل رخ بیگم |
||||||
خاندان | مغل خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
مغل شہنشاہ (2 ) | |||||||
برسر عہدہ 26 دسمبر 1530 – 17 مئی 1540 |
|||||||
| |||||||
مغل شہنشاہ (2 ) | |||||||
برسر عہدہ 22 فروری 1555 – 27 جنوری 1556 |
|||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | شاہی حکمران | ||||||
مادری زبان | چغتائی | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | چغتائی ، فارسی ، عربی | ||||||
درستی - ترمیم |
مغل حکمران | |
ظہیر الدین محمد بابر | 1526–1530 |
نصیر الدین محمد ہمایوں | 1530–1540 1555–1556 |
جلال الدین اکبر | 1556–1605 |
نورالدین جہانگیر | 1605–1627 |
شہریار مرزا (اصلی) | 1627–1628 |
شاہجہان | 1628–1658 |
اورنگزیب عالمگیر | 1658–1707 |
محمد اعظم شاہ (برائے نام) | 1707 |
بہادر شاہ اول | 1707–1712 |
جہاں دار شاہ | 1712–1713 |
فرخ سیر | 1713–1719 |
رفیع الدرجات | 1719 |
شاہجہان ثانی | 1719 |
محمد شاہ | 1719–1748 |
احمد شاہ بہادر | 1748–1754 |
عالمگیر ثانی | 1754–1759 |
شاہجہان ثالث (برائے نام) | 1759–1760 |
شاہ عالم ثانی | 1760–1806 |
[[بیدار بخت محمود شاہ بہادر] (برائے نام) | 1788 |
اکبر شاہ ثانی | 1806–1837 |
بہادر شاہ ظفر | 1837–1857 |
برطانیہ نے سلطنت مغلیہ کا خاتمہ کیا |
تخت نشینی
ترمیمبابر کی وفات کے بعد نصیر الدین ہمایوں 29 دسمبر 1530ء کو تخت نشین ہوا۔ بابر کی آخری علالت کے دوران وزیر اعظم نظام الدین خلیفہ نے سازش کی کہ مہدی خواجہ، جو ہمایوں کا بہنوئی اور تجربہ کار سپہ سالار تھا، کو تخت پر بٹھادیا جائے لیکن یہ سازش ناکام رہی اور بابر نے پہلے ہی امرا کو وصیت کی کہ وہ ہمایوں کو تخت نشین کریں اور اس سے وفاداری نبھائیں۔ اس طرح بابر کی وفات پر ہمایوں تخت نشین ہوا۔
ہمایوں کی مشکلات
ترمیمورثے میں ملا ہوا تخت ہمایوں کے لیے پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوا۔ بابر کو اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ اپنی پوزیشن اور حکومت کو مجتمع و مستحکم کرتا اور یہی غیر مستحکم حکومت ہمایوں کی مشکلات کا باعث بنی۔
بہت سے مورخین کی رائے میں ہمایوں نے خود متعدد فاش غلطیوں کا ارتکاب کیا اور اپنے کردار کی خامیوں کے باعث اسے مشکلات سے دوچار ہونا پڑا اور اپنی سلطنت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
سلطنت کی تقسیم
ترمیمبابر نے بستر مرگ پر ہمایوں کو یہ وصیت کی تھی کہ وہ اپنے بھائیوں سے فیاضانہ سلوک کرے اور ہمایوں نے تخت نشین ہوتے ہی کچھ زیادہ فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اس نے اپنی سلطنت بھائیوں میں تقسیم کردی۔ اس نے کامران مرزا کو کابل اور قندھار، ہندال کو میوات اور عسکری کو سنبھل کا علاقہ بطور جاگیر دے دیے۔ اپنے چچیرے بھائی سلیمان مرزا کو بدخشاں کا علاقہ عطا کیا۔ ہمایوں کے اس فیاضانہ سلوک کے باوجود اس کے بھائی مطمئن نہ ہوئے اور انھوں نے ہمایوں کا ساتھ دینے کی بجائے اس کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ کامران نے بعد میں پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ ہمایوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ بلکہ حصار فیروزہ کا علاقہ بھی اس کے حوالے کر دیا۔ یہ ہمایوں کی سیاسی غلطی تھی کہ اس نے اپنے اہم علاقے فوجی قوت کے حامل تھے۔ حصار فیروزہ کا پایۂ تخت اور کابل و قندھار کے درمیان ایک اہم فوجی چوکی تھا اور اس علاقے کے ہاتھ سے نکل جانے سے اس کی فوجی طاقت کمزور پڑ گئی۔ ان علاقوں کی آمدنی ہاتھ سے چلی جانے سے مالی نقصان بھی ہوا۔
بغاوتیں اور سازشیں
ترمیمبابر کی وفات کے فوراً بعد ملک میں چاروں طرف بغاوتیں پھیل گئیں۔ بابر نے ہندوستانی حکومت اور سلطنت افغان حکمران ابراہیم لودھی کو قتل کرکے حاصل کی تھی اب افغانوں کو شدت سے احساس ہواکہ افغان حکومت جیسی بھی تھی ان کی اپنی تھی مگر اب وہ مغلوب ہو چکے تھے اس لیے وہ اپنی حکومت کی بحالی کے لیے میدان میں آ گئے انھیں محمود لودھی، بہادر شاہ اور شیر خان سوری جیسے سردار مل گئے افغان امرا کو اس بات کا احساس تھا کہ ہندوستان پر ان کا حق ہے اور مغلوں کو وہ ملک سے نکال باہر کرسکتے ہیں۔ افغانوں کو محمود لودھی پر پورا اطمینان تھا۔ تمام افغان سرداروں نے تخت کے حصول کے لیے ہرطرح کی ممکن کوششیں شروع کر دیں۔ اس کے علاوہ بہار میں شیر خان نے اپنی فتوحات و مہمات کا سلسلہ شروع کر دیا۔ گجرات میں بہادر شاہ ہمایوں کو ہندوستان سے نکال دینے کے لیے مصروفِ جِدوجُہد تھا۔ ہمایوں کے کردار کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ اپنے دشمنوں کا مکمل خاتمہ نہیں کرتاتھا بلکہ ایک معمولی فتح کے بعد جشن مناتا اپنے امرا میں تمغے اور انعامات تقسیم کرتا۔ جبکہ اس کے دشمن اس کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف ہوتے تھے جبکہ وہ کتب خانوں میں مطالعہ میں مصروف رہتاتھا دشمن کو معاف کرنا اس کی فطرت تھی اس نے بار بار شیرخان سوری کے حلف ،قسموں اور وعدوں پر اعتبار کیا اور اسے بار بار معاف کیا اور اسے ایک معمولی باغی سے زیادہ اہمیت نہ دی یہاں تک کہ اس نے 1540ء میں ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اب وہ شیر خان سے شیر شاہ بن گیا افغانوں نے اسے اپنا متفقہ بادشاہ تسلیم کر لیا۔
شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہمایوں نے لاہور کی راہ لی مگر افغان فوج نے اسے یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا وہ ملتان جا پہنچا مگر وہاں سے بھی نکلنا پڑاوہ سندھ میں عمر کوٹ پہنچا جہاں کے راجا نے اسے خوش آمدید کہا یہاں اکبر کی ولادت ہوئی۔ مگر افغانوں نے اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا وہ ایران کی طرف نکل گیا مگر اس کا بیٹا اکبر اپنے چچا کامران مرزا کے ہاتھ لگ گیا ایران کے بادشاہ طہماسپ نے اسے خوش آمدید کہا اور ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ۔
ذاتی کردار
ترمیمہمایوں کے تخت نشین ہوتے ہی بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے سیاسی بصیرت اور قابلیت کی ضرورت تھی لیکن ہمایوں عزم و استقلال سے عاری تھا۔ وہ وقت کی قدر و قیمت نہ جانتا تھا۔ اس نے سب سے پہلے مشرق میں محمود لودھی پر حملے کیے اور انھیں پسپا کیا لیکن ان حریفوں کا قلع قمع کیے بغیر والئ گجرات سے نبرد آزما ہونے کی ٹھانی۔ اگر وہ دور اندیش ہوتا تو شیر خان کو طاقتور بن جانے کی مہلت نہ دیتا اور گجرات کی تسخیر میں وقت ضائع نہ کرتا۔ اسی طرح جب اس نے گجرات پر حملہ کیا تو والئ گجرات چتوڑ کی مہم میں مصروف تھا۔ چتوڑ کی رانی نے ہمایوں سے امداد طلب کی اوراسے اپنا منہ بولا بھائی کہتے ہوئے فوجی مددمانگی مگر اس نے ایک مسلمان کے خلاف کافر کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اگرچہ مذہبی نکتہ نظر سے یہ فیصلہ درست تھا مگر سیاسی نقطہ نظر سے اس کی بہت بڑی غلطی تھی۔ اس طرح اس نے راجپوتوں کی دوستی کا موقع ضائع کر دیا۔ وہ راجپوتوں سے مل کر افغانوں کو شکست دے سکتاتھا مگر اس نے یہ موقع گنواکرسیاسی غلطی کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمایوں کی مشکلات کے حل میں ناکامی اس کے اپنے کردار کی خامیوں کی بدولت تھی۔ اگر وہ مستقل مزاجی، دور اندیشی اور سیاسی بصیرت سے کام لیتا تو باآسانی مشکلات پر قابو پاسکتا تھا۔ اس میں قوت فیصلہ کی کمی تھی وہ سیاسی فوائد حاصل کرنے سے عاری تھا دراصل اس کا کردار ہی اس کا دشمن تھا ۔
ہمایوں کی وفات 1556ء
ترمیمہندوستان کی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے بعد ہمایوں طویل عرصہ زندہ نہ رہاوہ ایک شام کو اپنے کتب خانہ کی سیڑھیاں اتر رہاتھا کہ اذان مغرب کی آواز سنی وہ سیڑھیوں پر ہی رک گیا مگر بدقسمتی سے اس کی لاٹھی پھسل گئی اور وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہو گیا اور انھیں زخموں سے اس کا انتقال ہو گیا۔ مشہور یورپی مؤرخ لین پول کے مطابق “اس نے تما م عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھاکر مرا“
نصیر الدین محمد ہمایوں پیدائش: 17 مارچ 1508ء وفات: 27 جنوری 1556ء
| ||
شاہی القاب | ||
---|---|---|
ماقبل | مغلیہ سلطنت 26 اپریل 1530ء— 17 مئی 1540ء |
مابعد شیر شاہ سوری
(بطور سلطان دہلی) |
ماقبل محمد عادل شاہ
(بطور سلطان دہلی) |
مغل شہنشاہ 22 فروری 1555ء— 27 جنوری 1556ء |
مابعد |